مالدیپ میں جمہوریت کو خطرہ

ہند مہاساگر میں واقع جزیرہ نما دیش مالدیپ ان دنوں سیاسی بحران کی طرف تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ جمہوری عمل اور شہری انتظامیہ کو تلانجلی دیتے ہوئے مالدیپ کے صدر عبداللہ یامین نے نہ صرف اپوزیشن لیڈروں کی رہائی پر سپریم کورٹ کے حکم کو ماننے سے انکار کردیا ہے بلکہ پارلیمنٹ کو بھی ایک طرح سے سیل بند کردیا۔ اس سے انہوں نے اپوزیشن کی پہنچ سے دور کردیا۔ حالت یہ ہے کہ وہاں کی فوج صدر کی حمایت کررہی ہے جس سے عدالتی حکم پر عمل ہی مشکل ہوگیا ہے۔ دراصل صدر یامین نے خود کو چوطرفہ بحران میں ڈال دیا ہے اور وہ کسی طرح اقتدار میں بنے رہنا چاہتے ہیں۔ مالدیپ میں جمہوریت کی بحالی 2008 میں ہوئی اور محمد نشید جمہوری طریقے سے دیش کے پہلے صدر بنے تھے۔2013 میں انہیں کرپشن کے الزامات میں اقتدار سے ہٹا دیا گیا اور صدر یامین اقتدار پر قابض ہوگئے۔ مالدیپ میں اصل سیاسی بحران کی شروعات بھی یہیں سے ہوئی۔ اظہاررائے کی آزادی، اپوزیشن پارٹیوں اور جمہوری عمل و انسانی حقوق کے حمایتیوں کے خلاف کارروائی شروع ہوگئی۔ اپوزیشن کے نیتا جیل میں ڈالے جانے لگے اور عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑ گئی۔ نشید کو13 سال جیل کی سزا سنائی گئی جس کی بین الاقوامی برادری نے سخت مذمت کی تھی۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ تک نے کہا کہ وہاں کی سرکار آئین اور بین الاقوامی قانون کو تلانجلی دے رہی ہے۔ خود نشید پہلے سے برطانیہ میں ہیں اور بھارت سمیت مغربی دیشوں میں ان کی اچھی خاصی پکڑ ہے جس کی وجہ سے یامین سرکارپر بین الاقوامی دباؤ ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کو مانیں۔ مالدیپ کا صرف یہی بحران نہیں ہے اس دیش کا نام اسلامک اسٹیٹ کے ایک مرکز کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ چار لاکھ کی آبادی والے اس دیش میں 200 لوگوں کے عراق اور شام جا کر اسلامی اسٹیٹ میں شامل ہونے کی خبریں آچکی ہیں۔ مگر ان کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لمبی تاناشاہی جھیل چکے اس دیش میں جمہوریت کے لئے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں چین نے یہاں جس طرح سے سرمایہ لگایا ہے اس سے مالدیپ کے ساتھ ہمارے رشتے خوشگوار نہیں ہیں۔ وزیر اعظم مودی کا 2015 میں مجوزہ دورہ کرنے کے بعد ان کا دوبارہ پروگرام نہیں بن سکا۔ بھارت کی نظر وہاں کے واقعات پر ہے لیکن حالات بدلنے سے پہلے اسے وہاں ضروری مداخلت سے نہیں ہچکچانا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟