ضمنی چناؤ نتیجے سے مضبوط ہوتا اپوزیشن اتحاد

گجرات اسمبلی چناؤ میں بہترین مظاہرہ کرنے اور راجستھان ضمنی چناؤ میں تین سیٹیں (دو پارلیمانی ایک اسمبلی) سیٹ پر بھاجپا کا صفایا کرنے کے بعد کانگریس اور تمام اپوزیشن پارٹیوں کا حوصلہ بڑھا ہے۔ یوپی اے کی چیئرپرسن سونیاگاندھی کی رہنمائی میں 17 اپوزیشن پارٹیوں کی میٹنگ میں اسے محسوس بھی کیا گیا۔ بیٹے راہل گاندھی کو پارٹی کی باگ ڈور سونپنے کے بعد سونیا گاندھی کی یہ پہلی میٹنگ تھی۔ 17 پارٹیوں کے نمائنوں کی سانجھے داری والی اس میٹنگ کو شروع سے ہی خطاب کرتے ہوئے سونیا گاندھی نے ایک طرح سے میٹنگ کا ایجنڈا طے کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی ، بے روزگاری، کسانوں پرچھائے بحران اور کاسگنج سمیت دیش کے کئی حصوں میں نفرت کی لکیر پرہوئے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قومی اہمیت کے اشو پر اپوزیشن کو متحد ہونا چاہئے۔ سونیا گاندھی سمیت کانگریس کے سبھی نیتاؤں نے اس وقت اپوزیشن کی ایکتا کو دیش کے لئے ضروری بتایا۔ میٹنگ میں دوسری پارٹی کے نیتاؤں نے بھی کہا کہ وقت کی پکار ہے کہ اپوزیشن متحد ہوکر مودی کا مقابلہ کرے۔بلا شبہ کانگریس کے حالیہ پردرشن نے اسے سنجیونی دے دی ہے اور اب پارٹی کا سارا زور نہ صرف بھاجپا کی حریف پارٹیوں کو ایک ساتھ اسٹیج پر لانا ہے بلکہ ان کے ساتھ اشوز پر عام رائے بنانے کا بھی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد کو کیسے پٹری پر لایا جائے اور اس کا کیا خاکہ ہو ،اس پر شرد پوار جیسے اپوزیشن کے سرکردہ لیڈروں کو لگتا ہے کہ وہ پرانے اور تجربہ کار نیتا ہیں اور وہی اپوزیشن کو ایک کر سکتے ہیں یا اپوزیشن کو انہی کی لیڈرشپ میں متحد ہونا چاہئے۔ پچھلے دنوں شرد پوار نے اپوزیشن پارٹیوں کی میٹنگ بلا کر شاید یہ ہی جتانا چاہا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ سونیا گاندھی کی پہل سے مشترکہ میٹنگ بلانے کے پیچھے کانگریس کا ارادہ سب کو یہ احساس کرانا رہا ہو کہ اپوزیشن کا مقصد وہی ہے ۔ سونیا نے میٹنگ میں صاف طور پر کہا کہ ہمیں ہر حال میں سابقہ اختلافات پر پانی پھیرنا ہوگا۔ قومی سطح پر اتفاق رائے کا مسودہ تیار کرنا ہوگا ساتھ ہی جن اشو کو لیکر2019 میں چناوی میدان پر اترنا ہوگا اس پر بھی تفصیل سے غور کیا گیا۔ مثلاً نفرت کی آئیڈیالوجی، فرقہ وارانہ تشدد ،ذات پات کی نفرت کو ختم کرنے کی سمت میں کیسے مل کر کام کرنا چاہئے۔ تازہ میٹنگ میں سماجوادی پارٹی تو شامل ہوئی لیکن بسپا غیر حاضر رہی۔ پھر مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی میں کانگریس کے ساتھ میل جول کو لیکر دو رائے ہے جس کا اشارہ پچھلے دنوں کولکتہ میں کوئی سینٹرل کمیٹی کی میٹنگ کے وقت ملا۔ پھر کیرل میں تو مارکسوادی پارٹی کی بڑی حریف پارٹی کانگریس کی ہے۔ ان سب تضاد کا احساس کانگریس کو بھی ہے ہوگا۔ شاید اس لئے سونیا گاندھی نے کہا کہ ریاستوں میں مختلف اپوزیشن پارٹیوں کے الگ الگ مفاد ہوسکتے ہیں اور یہ فطری بپی ہے لیکن انہیں قومی اہمیت کے اشو پر متحد ہونا چاہئے۔ پہلے بھی کئی بار ایسے اتحاد بنے ہیں لیکن آپسی ٹکراؤ کے سبب چل نہیں سکے۔ قومی سطح پر ایک پائیدار اتحاد کے لئے یہ میٹنگ کتنی کارگر ہوگی یہ تو مستقبل پر منحصر ہے لیکن 17 اپوزیشن پارٹیوں کا ایک ساتھ گول میز پر آنا آنے والے دنوں میں کچھ دلچسپ اور حیرت انگیز نظارہ اور حقائق کے ساتھ دیکھنے کو ضرور ملے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!