دہشت گردوں کو نوید کی نقل و حرکت کی جانکاری کیسے ملی

سرینگر کے سب سے پرانے مہاراجہ ہریندر سنگھ اسپتال میں منگل کو دہشت گردوں کا گھات لگاکر حملہ کرنا اور لشکرطیبہ کے آتنکی نوید عرف ابوہنجالہ کو چھڑا کر لے جانا جہاں سیکورٹی میں بڑی خامی ہے بلکہ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے آتنک وادیوں کو پل پل کی جانکاری تھی۔ اس میں پولیس پر بھی مخبری کا شک ہے۔ سرینگر سینٹرل جیل سے آتنکی نوید کو اسپتال لے جانے کی جانکاری صرف پولیس ملازمین کو ہی تھی ایسے میں یہ جانکاری ان دہشت گردوں تک کیسے پہنچی ،اسے لیکر سوال کھڑا ہونا فطری ہی ہے۔ اس واردات میں دوسری چوک سامنے آرہی ہے۔ سرینگر سینٹرل جیل سے 6 آتنک وادیوں کو میڈیکل چیک اپ کے لئے اسپتال لاتے وقت سیکورٹی میں صرف10-15 پولیس والے ہی تعینات کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ اسپتال میں مزید سیکورٹی کے لئے کوئی خاص انتظام نہیں کئے گئے تھے۔ پاکستانی دہشت گرد محمد نوید جٹ عرف ابو ہنجالہ26/11 کے ممبئی حملے میں شامل قصاب کے بعد زندہ پکڑا جانے والا تیسرا آتنکی تھا۔ نوید کو پانچ دیگر قیدیوں کے ساتھ علاج کے لئے شری مہاراجہ ہری سنگھ اسپتال لایا گیا تو وہاں پہلے سے ہی موجود دو دہشت گردوں نے پولیس پر گولیاں برسانی شروع کردیں۔ اس میں دو پولیس ملازم ہیڈ کانسٹیبل مشتاق احمد و کانسٹیبل بابر احمد شہید ہوگئے۔ تینوں آتنکی موٹر سائیکل سے فرار ہوگئے۔ پارکنگ میں کھڑے ان دو دہشت گردوں نے جیل وین سے اترتے ہی آتنکی محمد نوید نٹ عرف ابو ہنجالہ کو پستول تھما دی۔ پھر دو پولیس ملازمین کو گولی مار کر تینوں فرار ہوگئے۔بھاری سیکورٹی والے اس اسپتال سے قریب 17 سال بعد اس طرح کوئی آتنکی بھاگا ہے۔ 2001 میں جنرل عبداللہ نام کا خطرناک آتنکی پہلی منزل سے کود کر فرار ہوا تھا۔ 22 سال کا پاک آتنکی جٹ 2014 میں ساؤتھ کشمیر کے کلگام سے پکڑا گیا تھا۔ جموں و کشمیر پولیس اسے اور دیگر پانچ قیدیوں کو وادی سے باہر شفٹ کرنا چاہتی تھی لیکن کورٹ نے اس کی اجازت نہیں دی۔ آتنکیوں کا حملہ اتنا خطرناک تھا کہ پولیس ملازمین کو ایکشن لینے کا موقعہ نہیں مل پایا۔ فیرن پہنے دو آتنکی اسپتال کے او پی ڈی کے سامنے پارکنگ میں ہی کھڑے تھے ۔جیل وین قریب 11:33 بجے قیدیوں کو لیکر پہنچی۔ یہاں مریضوں کی کافی بھیڑ تھی ،پولیس اور دیگر قیدیوں کے ساتھ جیسے ہی جٹ وین سے اترا توفیرن پہلے ایک آتنکی نے اسے پستول تھمادی۔ پستول ملتے ہی جٹ نے پہلے کانسٹیبل مشتاق احمد کی چھاتی پر گولیاں برسائیں، دوسرے کانسٹیبل بابر احمد نے جوابی کارروائی کی کوشش کی۔ جٹ اور اس کے ساتھی ان پر گولیاں برسا کر بھاگ گئے۔ یہ حملہ بغیر پولیس کی ملی بھگت کے نہیں ہوسکتا تھا۔ آتنکیوں کو جٹ کے نقل و حرکت کی پوری جانکاری تھی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟