راجستھان میں کانگریس نے ماری ہیٹ ٹرک ،بی جے پی کو جھٹکا
جس وقت مودی سرکار پارلیمنٹ میں اپنا آخری مکمل بجٹ پیش کررہی تھی ٹھیک اسی وقت راجستھان کے ضمنی چناؤ میں پارٹی کو زبردست ہار مل رہی تھی۔ ان چناؤ میں کانگریس نے بڑی تبدیلی کرتے ہوئے تینوں سیٹیں جیت لیں۔ وہاں کی دو لوک سبھا سیٹیں الور اور اجمیر کے علاوہ ایک اسمبلی حلقہ منڈل گڑھ میں ہوئے ضمنی چناؤ کے نتیجہ بی جے پی اور ریاست کی وزیر اعلی وسندھرا راجے سندھیا کے لئے زبردست جھٹکا ثابت ہوئے ہیں۔ کانگریس کی جیت اس لئے بھی اہم ترین ہوجاتی ہے کیونکہ ہار جیت کا مارجن بہت بڑا تھا۔ الور میں کانگریس کے امیدوار کرن سنگھ یادو نے بی جے پی امیدوارجسونت یادو کوڈیڑھ لاکھ سے بھی زیادہ ووٹوں سے ہرایا۔ وہیں اجمیر لوک سبھا سیٹ پر کانگریس کے رگھو شرما نے بی جے پی کے رام سروپ کو چناؤ میں ہرادیا۔ منڈل گڑھ اسمبلی سیٹ پر کانگریس کے وویک دھاکڑ نے بھی بی جے پی کے شکتی سنگھ کو مات دے دی۔ یہ تینوں سیٹیں پہلے بی جے پی کے پاس تھیں۔ اس جیت نے جہاں سال کے آخر میں راجستھان اسمبلی چناؤ سے ٹھیک پہلے کانگریس کو بہت بڑا حوصلہ دیا تو بی جے پی کے لئے بڑی تشویش بن کر سامنے آئی۔ 2013 میں بی جے پی بہت بڑی جیت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی اور 2014 میں پارٹی نے ریاستی کی سبھی 25 لوک سبھا سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔ اس سال کے آخر میں ہونے والے اسمبلی چناؤ کے پیش نظر یہ ضمنی چناؤ کہیں نہ کہیں سیمی فائنل مانے جارہے ہیں۔ اس چناؤ نتیجے کے بعد کانگریس کے اندر سچن پائلٹ کا قدتیزی سے بڑھے گا ۔ معلوم ہو کہ پارٹی نے سچن پائلٹ کو راجستھان کی ذمہ داری سونپی۔ وہ تبھی سے وہاں جمے ہوئے ہیں۔ اس چناؤ کو ان کی لیڈر شپ کا پہلا ٹیسٹ بھی مانا جارہا تھا ساتھ ہی وہاں کانگریس کے اندر دو خیموں میں پائلٹ گروپ اور اشوک گہلوت گروپ کے درمیان بھی بالادستی کی لڑائی چل رہی تھی۔ اس سے بھی اب اس نتیجے کے بعد سچن پائلٹ کا قد بڑھے گا ساتھ ہی چناؤ نتیجے سے راجستھان کی وزیر اعلی وسندھرا راجے کا گراف گرا ہے اور ان کی لیڈر شپ پر سنگین سوال اٹھیں گے۔ حالیہ دنوں میں یہ کئی مورچوں پر گھری وسندھرا سرکار کے لئے یہ نتیجہ بہت سنگین نتیجے لا سکتے ہیں۔ اس سے پارٹی کے اندر بھی ان کے خلاف آوازیں اٹھ سکتی ہیں۔ بی جے پی کے اندر ایک بااثر گروپ کا خیال ہے کہ وسندھرا کی لیڈر شپ میں اس سال کے آخر میں ہونے جارہے اسمبلی چناؤ پارٹی جیت نہیں سکتی لہٰذا چناؤ سے پہلے ان کو بدلا جائے۔بی جے پی میں کئی مہینے پہلے یہ مانا جارہا تھا کہ راجستھان میں وسندھرا سرکار پر اینٹی کمبینیسی ہے لیکن الور، اجمیر اور مانگل گڑھ کے نتیجے اتنے خراب آئیں گے ، اس کی امید نہیں تھی۔ اب ان نتیجوں کو خطرے کے گھنٹی مان کرتشویش ظاہر کی جارہی ہے۔ ہوسکتا ہے پارٹی میں کچھ نیتا وسندھرا راجے کو بدلنے کی صلاح بھی دینے لگے ہوں۔
یہ ضمنی چناؤ حکمراں بی جے پی کے لئے اپنے روایتی ووٹ بینک کے کھسکتے رشتوں کی کہانی بن گیا ہے۔ راجپوت تنظیموں نے فلم پدماوت اور دوسرے اشو کو لیکر بی جے پی کو ہرانے کی اپیل کی تھی۔ کرنی سینا نے دعوی کیا ہے کہ پہلا موقعہ جب راجپوت گروپ نے بی جے پی سے اپنا پرانا رشتہ توڑا اور اس کے خلاف ووٹ کیا۔ کرنی سینا کے مطابق بی جے پی سے ناراضگی کے کئی اسباب تھے۔ پچھلے سال 24 جون کو آنند پال انکاؤنٹر نے بی جے پی سرکار و راجپوت سماج کے رشتوں میں دوری پیدا کردی تھی۔آنند پال رانا راجپوت سماج کے تھے۔ راجپوت سماج خود کو راونئی سماج کے قریب مانتا ہے ۔ اس واقعہ سے بی جے پی اور اس کے روایتی ووٹ بینک سمجھے جانے والے راجپوت سماج میں فاصلہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس کی بھرپائی نہیں ہوپائے تھی۔ سنجے لیلا بھنسالی کی فلم نے اس دراڑ کو اور چوڑا کردیا۔
راجپوت کبھی بھی کانگریس حمایتی نہیں رہے مگر یہ پہلا موقعہ تھا کہ جب بی جے پی کوہرانے کے لئے ووٹ دینا پڑا۔ ساتھ ہی جاٹ اور گوجر فرقہ میں ریزرویشن کا معاملہ بھی پنپ رہا تھا۔ بی جے پی کے اندر بھی ایک گروپ وسندھرا راجے سے خوش نہیں تھا۔ پارٹی ہائی کمان نے ایک بھی مرکزی نیتا کو راجستھان میں چناؤ پرچار کرنے کے لئے ہیں بھیجا۔ راجستھان کی دو لوک سبھا سیٹوں جیتنے کے ساتھ ہی کانگریس چا لوک سبھا سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی ہے۔ جہاں ضمنی چناؤ ہوئے ہیں یہ چاروں سیٹیں پہلے بی جے پی کے پاس تھیں۔ کانگریس نے مدھیہ پردیش کی رتلام اور پنجاب میں گورداس سیٹ بی جے پی سے چھیننے میں کامیابی پائی۔ اب سب کی نظر یوپی کی دو لوک سبھا سیٹوں ،گورکھپور۔ پھولپور اور بہار کی ارریہ سیٹ پر ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی کو نئے سال کا تحفہ مل گیا ہے۔ ان کی لیڈر شپ کو اور مضبوطی ملے گی۔
یہ ضمنی چناؤ حکمراں بی جے پی کے لئے اپنے روایتی ووٹ بینک کے کھسکتے رشتوں کی کہانی بن گیا ہے۔ راجپوت تنظیموں نے فلم پدماوت اور دوسرے اشو کو لیکر بی جے پی کو ہرانے کی اپیل کی تھی۔ کرنی سینا نے دعوی کیا ہے کہ پہلا موقعہ جب راجپوت گروپ نے بی جے پی سے اپنا پرانا رشتہ توڑا اور اس کے خلاف ووٹ کیا۔ کرنی سینا کے مطابق بی جے پی سے ناراضگی کے کئی اسباب تھے۔ پچھلے سال 24 جون کو آنند پال انکاؤنٹر نے بی جے پی سرکار و راجپوت سماج کے رشتوں میں دوری پیدا کردی تھی۔آنند پال رانا راجپوت سماج کے تھے۔ راجپوت سماج خود کو راونئی سماج کے قریب مانتا ہے ۔ اس واقعہ سے بی جے پی اور اس کے روایتی ووٹ بینک سمجھے جانے والے راجپوت سماج میں فاصلہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس کی بھرپائی نہیں ہوپائے تھی۔ سنجے لیلا بھنسالی کی فلم نے اس دراڑ کو اور چوڑا کردیا۔
راجپوت کبھی بھی کانگریس حمایتی نہیں رہے مگر یہ پہلا موقعہ تھا کہ جب بی جے پی کوہرانے کے لئے ووٹ دینا پڑا۔ ساتھ ہی جاٹ اور گوجر فرقہ میں ریزرویشن کا معاملہ بھی پنپ رہا تھا۔ بی جے پی کے اندر بھی ایک گروپ وسندھرا راجے سے خوش نہیں تھا۔ پارٹی ہائی کمان نے ایک بھی مرکزی نیتا کو راجستھان میں چناؤ پرچار کرنے کے لئے ہیں بھیجا۔ راجستھان کی دو لوک سبھا سیٹوں جیتنے کے ساتھ ہی کانگریس چا لوک سبھا سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی ہے۔ جہاں ضمنی چناؤ ہوئے ہیں یہ چاروں سیٹیں پہلے بی جے پی کے پاس تھیں۔ کانگریس نے مدھیہ پردیش کی رتلام اور پنجاب میں گورداس سیٹ بی جے پی سے چھیننے میں کامیابی پائی۔ اب سب کی نظر یوپی کی دو لوک سبھا سیٹوں ،گورکھپور۔ پھولپور اور بہار کی ارریہ سیٹ پر ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی کو نئے سال کا تحفہ مل گیا ہے۔ ان کی لیڈر شپ کو اور مضبوطی ملے گی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں