رافیل کی قیمت بتانے سے انکار پر اٹھے سوال

قریب ایک گھنٹے کے اندر دہلی سے پاکستان کے کوئٹہ شہر اور کوئٹہ سے دہلی واپسی یہ اس جنگی جہاز رافیل کی رفتار ہے جس کی خریداری میں کانگریس صدر راہل گاندھی گھپلے کی بار کررہے ہیں۔ رافیل سودے کو گھوٹالہ بتاتے ہوئے راہل نے کہا ایک کاروباری کو فائدہ پہنچانے کے ارادے سے سودے کو بدلنے کیلئے وزیر اعظم خودپیریس گئے تھے۔ بجٹ سیشن میں راہل نے ایک بار پھر یہ معاملہ اٹھایا۔ بدھوار کو انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اپنی خاموشی توڑنے کے بجائے کرپشن کرنے والوں کو بچا رہے ہیں۔ ادھر وزیر دفاع نرملا سیتا رمن کہتی ہیں کہ ہر ایک رافیل جیٹ کی قیمت کے لئے پی ایم نے جو بات چیت کی وہ راز ہے۔ انہوں نے کہا آرٹیکل 10 کے مطابق، سودے کی جانکاری راز میں رکھی جائے گی۔ سال2008 میں دونوں دیشوں کے درمیان ہوئے انٹر گورمنٹ ایگریمنٹ کے تحت ایسا کیا جائے گا۔ وزیر دفاع محترمہ سیتا رمن کے اس جواب اور راہل گاندھی کے الزامات کے بعد کانگریس نے پریس کانفرنس کر کچھ سوال پوچھے۔ یوپی اے سرکار کے وقت رافیل کی قیمت 526 کروڑ روپے تھی لیکن سننے میں آیا کہ مودی سرکار نے ایک رافیل جہاز 1570 کروڑ روپے میں خریدا ہے، یعنی قریب تین گنا۔ یہ سچ ہے یا نہیں یہ کون بتائے گا؟ اس نقصان کی وجہ اور ذمہ داری کس کی ہے؟ سال2016 میں فرانس سے جو معاہدہ ہوا اس سے پہلے کیا سیکورٹی پر بنی کیبنٹ کمیٹی سے منظوری لی گئی تھی؟ خانہ پوری کو کیوں نہیں مانا گیا، کیا کرپشن کا کیس نہیں بنتا؟ دیش کی ضرورت 126 جہازوں کی تھی اور مودی گئے اور جیسے سنترے خریدے جاتے ہیں ویسے رافیل جہاز خرید لئے گئے۔ سال 2010 میں یوپی اے سرکار نے خرید کی کارروائی فرانس سے شروع کی۔2012 سے 2015 تک دونوں ملکوں میں بات چیت چلتی رہی۔2014 میں یوپی اے کی جگہ مودی سرکار اقتدار میں آگئی اور ستمبر 2016 میں بھارت میں فرانس کے ساتھ36 رافیل جہازوں کے لئے قریب59 ہزار کروڑ روپے کے سودے پر دستخط کرلئے۔ مودی نے 2016 ستمبر میں کہا تھا کہ دفاعی تعاون کے سلسلے میں 36 رافیل جہازوں کی خرید کو لیکر خوشی کی بات ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان کچھ مالی پہلوؤں کو چھوڑ کر سمجھوتہ ہوگیا ہے۔ مودی سرکار میک آف انڈیا کا جم کر پروپگنڈہ تو کرتی ہے لیکن اس سمجھوتہ میں بھارت کی ایک محض جہاز بنانے والی کمپنی ہندوستان ایرونوٹکس لمیٹڈ کو نظر انداز کیا گیا۔ ڈیفنس معاملوں کے جانکار اجے شکلا نے اپریل 2015 میں کہا تھا کہ وزیر اعظم مودی کے ساتھ ریلائنس (اے ڈی اے جی) کے چیف انل امبانی اور ان کے گروپ کے افسران بھی گئے تھے۔ انہوں نے رافیل بنانے والی کمپنی کے ساتھ بات چیت بھی کی تھی۔ راہل گاندھی کے الزام کے بعد سینئر وکیل پرشانت بھوشن بات آگے بڑھاتے ہیں انہوں نے منگل کو اپنے ٹوئٹ میں لکھا، مارچ 2015 میں امبانی نے ریلائنس ڈیفنس کا رجسٹریشن کروایا۔ دو ہفتے بعد ہی مودی یوپی اے سرکار کی 600 کروڑ روپے کی خریدی جانے والی رافیل ڈیل کو 1500 کروڑ کی نئی ڈیل میں بدل دیتے ہیں۔ پبلک سیکٹر کی ایم اے ایل کی جگہ امبانی کی جگہ نے لی تاکہ 58 ہزار کروڑ کے کیک کو چکھا جا سکے۔ کچھ میڈیا رپورٹس کی مانیں تو رافیل کے لئے بھارت کو باقی ملکوں کے مقابلہ زیادہ قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ ڈیفنس ویب سائٹ کے مطابق سال2015 میں بھارت کے علاوہ قطر نے بھی فرانس سے رافیل خریدنے کا سمجھوتہ کیا تھا۔ قطر کو ایک رافیل قریب 108 ملین ڈالر یعنی 693 کروڑ روپے میں ملا ۔ اگر یہ رپورٹ صحیح ہے تو یہ قیمت بھارت کی رافیل کے لئے مبینہ طور پر چکائی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ مودی سرکار کو اس سودے میں جہاز کی تکنیک کی جانکاریوں کو خفیہ رکھنے کے ساتھ ان کی ادا کردہ قیمت کی جانکاری دیش کو دینی چاہئے۔ چھپانے سے الٹا شبہ بڑھتا ہے۔ راہل گاندھی کو پارلیمنٹ کے اندر الزام لگانے چاہئیں باہر نہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟