مودی سرکار حمایتی پارٹیوں میں ناراضگی

شیو سینا کے بعد اب مودی سرکار کی دوسری سب سے بڑی اتحادی جماعت تیلگودیشم نے بھی آنکھیں دکھانی شروع کردی ہیں۔ آندھرا میں پی ڈی پی نے فی الحال بھلے ہی این ڈی اے نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہو مگر اس نے اپنی ناراضگی ظاہر کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھی۔ اس سے پہلے بی جے پی کی سب سے پرانی اتحادی پارٹی شیو سینا باقاعدہ اپنی قومی ورکنگ کمیٹی میں پرستاؤ پاس کرچکی ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ اپنا اتحاد اگلے لوک سبھا چناؤ میں جاری نہیں رکھے گی۔ شیو سینا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے لوک سبھا چناؤ اکیلے لڑے گی۔ 2019 میں لوک سبھا چناؤ سے پہلے دیش کے سیاسی تجزیئے بدلنے شروع ہوگئے ہیں۔ پی ڈی پی سمیت این ڈی اے میں شامل قریب آدھا درجن پارٹیاں فی الحال بھاجپا سے ناراض چل رہی ہیں۔ شیو سینا تو اتحاد سے ہی الگ ہوگئی ہے۔ یوپی میں سہلدیو بھارتیہ سماج پارٹی، اپنا دل، بہار میں لوک سمتا پارٹی ، مہاراشٹر میں راشٹریہ سماج بھی بھاجپا سے ناراض چل رہی ہیں۔ اس سال 8 ریاستوں کے اسمبلی چناؤ ہونے ہیں۔ کئی پارٹیاں ان چناؤ کے نتیجوں کے بعد بھی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرسکتی ہیں۔ مودی کی رہنمائی میں لوک سبھا چناؤ جیتنے اور مرکز میں اپنی سرکار بنانے کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے کہ بھاجپا کی اتحادی پارٹیوں کی طرف سے ایسی علیحدگی پسندی والی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ بھاجپا کی رہنمائی والے این ڈی اے میں جب ناراضگی و دھمکی اور وارننگ وغیرہ کی آوازیں اٹھتی رہتی تھی مگر مودی کی لیڈر شپ والے اس دور کے لئے یہ نئی باتیں ہیں۔ دونوں میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ واجپئی سرکار ان اتحادی پارٹیوں کی حمایت پر منحصر ہوتی تھی جبکہ آج بھاجپا کو لوک سبھا میں مکمل اکثریت حاصل ہے۔ این ڈی اے کی سبھی اتحادی پارٹیوں کو یہ بخوبی معلوم ہے کہ ان کی حمایت واپس لینے سے مودی سرکار کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔یہ صحیح ہے کہ مودی سرکار نے ان پارٹیوں کو کبھی خاص اہمیت نہیں دی۔ مگر اب چناؤ قریب آرہے ہیں سرکار اپنا آخری مکمل بجٹ پیش کرچکی ہے یعنی سماج کے ناراض گروپوں کے لئے ٹھوس کچھ کرنے کا اچھا موقعہ اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ حال ہی میں ہوئے مغربی بنگال ۔راجستھان ضمنی چناؤ میں بھی پارٹی کو مایوسی ہاتھ لگی ہے۔ ضمنی چناؤ کو پھر بھی بھاجپا لیڈر شپ مقامی معاملہ کہہ کر ٹال سکتی ہے مگر اتحادی پارٹیوں کی ناراضگی کو نظرانداز کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ اب یہ صرف پارٹیوں یا سیٹوں کا معاملہ نہیں ہے عام ووٹوں کی گول بندی کا سوال ہے۔ اس سے میں ذرا سا بھی الٹ پھیر ووٹ فیصد میں بڑی ردوبدل کرسکتا ہے بھاجپا کے اندر بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہیں۔ پارٹی میں بھی ناراضگی پائی جاتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!