کیا نیٹ جیسے امتحان سے ججوں کی بھرتی ممکن ہے
ججوں کی تقرری کو لیکر حکومت اور جوڈیشیری میں پچھلے دوسال سے کافی رسہ کشی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس دوران اگر ججوں کی خالی اسامیوں پر نظر ڈالیں تونچلی عدالت سے ہائی کورٹ تک ججوں کی جگہ کافی خالی ہے۔ پورے دیش ہائی کورٹ اور لوئر کورٹ میں ججوں کی منظور اسامیوں پر بھاری کمی ہے۔ یکم جون 2017 کے اعدادو شمار کے مطابق کل 24 ہائی کورٹ میں منظور اسامیاں 1079 ہیں۔ ان میں سے 419 اسامیاں خالی ہیں۔ کولکتہ ہائی کورٹ میں کل منظور 73 جگہوں میں سے 37 خالی ہیں۔ مدراس ہائی کورٹ میں 75 اسامیوں کی جگہ ہیں جہاں 26 جگہ خالی ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کی بات کی جائے تو یہاں منظور اسامیاں 85 ہیں جن میں سے 39 ججوں کی کرسی خالی ہے۔ وہیں سپریم کورٹ میں کل 31 منظور اسامیوں پر 4 خالی پڑی ہوئی ہیں۔ جہاں تک نچلی عدالت کا سوال ہے تو وہاں بھی 4166 اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دیش بھر میں کروڑوں مقدمے التوا میں ہیں۔ حالانکہ سپریم کورٹ میں دستیاب اعدادو شمار کے مطابق پچھلے کچھ مہینوں میں مقدمات کے التوا میں کمی آئی ہے۔ یکم مارچ 2017ء کو یہاں سپریم کورٹ میں کل التوا مقدموں کی تعداد 62161 تھی وہیں یکم مئی کے اعدادو شمار کے مطابق یہ تعداد 60751 تک رہ گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں 10 سال یا اس سے پرانے 1132 دیوانی کے مقدمے التوا میں ہیں۔ وہیں 34 فوجداری مقدمے ایسے ہیں جو10 سال سے زیادہ سے التوامیں پڑے ہیں۔ وہیں دیش بھر کی 24 ہائی کورٹ عدالتوں پر نظر ڈالی جائے تو سال 2014 تک سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 4153957 معاملے التوا میں ہیں۔ ان میں سے 31 لاکھ مقدمے دیوانی کے معاملے ہیں جن میں سے 10 سال یا اس سے زیادہ وقت سے 5 لاکھ 79 ہزار دیوانی کے مقدمے التوا میں ہیں جبکہ 187000 فوجداری کے مقدمے 10 سال یا اس سے زیادہ وقت سے التوا میں ہیں۔ نچلی عدالتوں میں ججوں کی بھرتی کے لئے سرکار نے سپریم کورٹ کے سامنے نیٹ (قومی صلاحیت داخلہ امتحان) جیسے امتحان کرانے کی تجویز رکھی ہے۔ وزارت قانون کے سکریٹری (انصاف) کی جانب سے سپریم کورٹ کے سکریٹری جنرل کو لکھے ایک خط کے مطابق گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ کے میڈیکل نصابات میں داخلے کے لئے سی بی ایس سی کے ذریعے اپنایا گیا نیٹ ماڈل پر غور کیا جاسکتا ہے۔
نیٹ کی کارروائی کے مطابق داخلہ امتحان کرانے ، نتیجے کا اعلان اور آل انڈیا رینکنگ تیار کرنے کی ذمہ داری سی بی ایس سی کی ہے۔ دراصل 8 اپریل کو اچانک عدالت پر سرکار اور عدلیہ کے نمائندوں کے درمیان ہوئے تبادلہ خیالات کے بعد وزارت نے یہ خط لکھا ہے۔ حال میں عدلیہ حکام کی بھرتی کے لئے مختلف ہائی کورٹ اور ریاستی سروس کمیشن امتحان کا انعقاد کرتے ہیں۔ امیدکی جانی چاہئے کہ خالی ججوں کی تقرری جلدی ہوگی اور التوا میں پڑے مقدمات میں کمی آئے گی۔
نیٹ کی کارروائی کے مطابق داخلہ امتحان کرانے ، نتیجے کا اعلان اور آل انڈیا رینکنگ تیار کرنے کی ذمہ داری سی بی ایس سی کی ہے۔ دراصل 8 اپریل کو اچانک عدالت پر سرکار اور عدلیہ کے نمائندوں کے درمیان ہوئے تبادلہ خیالات کے بعد وزارت نے یہ خط لکھا ہے۔ حال میں عدلیہ حکام کی بھرتی کے لئے مختلف ہائی کورٹ اور ریاستی سروس کمیشن امتحان کا انعقاد کرتے ہیں۔ امیدکی جانی چاہئے کہ خالی ججوں کی تقرری جلدی ہوگی اور التوا میں پڑے مقدمات میں کمی آئے گی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں