برطانیہ میں معلق پارلیمنٹ: ٹیریزہ کا داؤں الٹا پڑا
کبھی کبھی سیاستداں تجزیہ کرنے میں ایسی غلطی کر بیٹھتے ہیں جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑتا ہے ایسی ہی ایک غلطی برطانیہ کی وزیر اعظم ٹیریزہ مے نے بھی کی ہے۔کنزرویٹو پارٹی کی لیڈر ٹیریزا نے اپنی میعاد پوری ہونے سے تین سال پہلے اچانک برطانیہ میں وسط مدتی چناؤ کا فیصلہ اس امید میں لیاتھا کہ وہ شاندار جیت حاصل کریں گی جوا نہیں یوروپی یونین کی شرطوں پر وہاں کے لیڈروں کے ساتھ مشکل سمجھوتے کو توڑنے اور یونین سے باہر ہونے کا راستہ دے گا لیکن جمعہ کو آئے چناؤ نتائج میں ٹیریزہ کا داؤں الٹا ثابت ہوا۔ اب تک مکمل اکثریت والی سرکار کی قیادت کررہی ٹیریزہ نے اس چناؤ میں سب سے زیادہ سیٹیں جیتی ہیں لیکن اکثریت نہ ملنے کے سبب درکار سیٹوں کے لئے انہیں اتحاد پر منحصر رہنا ہوگا۔ ان کی کنزرویٹو پارٹی کو318 سیٹیں حاصل ہوئیں جبکہ ٹیریزا کو سرکار بنانے کیلئے پارلیمنٹ میں کم سے کم 326 سیٹوں کو پورا کرنے کیلئے 8 سیٹیں کم ملی ہیں۔ چناؤ جائزوں میں ان کی جیت کے آثار جتائے جارہے تھے اس لئے جو نتیجے آئے انہیں کسی حد تک فطری طور پر غیر متوقعہ کہا جارہا ہے۔ یہی نہیں کئی کے لئے یہ نتیجے حیران کرنے والے بھی ہیں، کیونکہ لمبے عرصے بعد ایسا ہوا ہے کہ جب برطانیہ کے پارلیمانی چناؤ میں کسی کو واضح اکثریت نہیں ملی اور معلق پارلیمنٹ کی تصویر ایسے سامنے آئی جب نئی سرکار کو بریگزٹ کی کارروائی و شرطوں اور قاعدوں پر یوروپی یونین سے بات کرنی ہے اور مجوزہ بات چیت شروع ہونے میں بس 10 دن باقی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا عدم استحکام کی صورت میں مجوزہ بات چیت مقررہ وقت پر شروع ہوسکے گی، یا اس میں تاخیر ہوسکتی ہے؟ ڈیوڈ کیمرون نے جب بریگزٹ کے لئے رائے شماری کرائی تھی تب شاید انہیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان کا یہ قدم ان کی الوداعی کا سبب بن جائے گا، مگر اس کے بعد کے واقعات جس طرح سے بدلے ہیں جس میں تازہ چناؤ کو دیکھا جاسکتا ہے اس نے برطانیہ کی سیاست میں مچی ہلچل کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔کنزرویٹو پارٹی کی سیٹیں کم ہونے کے پیچھے دیش کی سلامتی بھی ایک بڑی وجہ ہے جسے چناؤ کے دوران آتنکی حملوں کے ذریعے چنوتی دی گئی۔ دراصل قومی سلامتی کے معاملے میں روایتی طور سے کنزرویٹو پارٹی کو لیبر پارٹی کے مقابلے میں زیادہ بھروسے مند مانا جاتا ہے مگر جس طرح سے مانچسٹر اور پھر اس کے بعد لندن میں ہوئے آتنکی حملوں کو انجام دیاگیا جس میں 30 لوگوں کی موت ہوگئی اس سے ان کی سرکار کی ساکھ اور شخصی طور پر نیتا کی شکل میں ٹیریزہ مے کی ساکھ پر آنچ آئی ہے۔ سب سے بڑی پارٹی ہونے کے سبب دوسرے نمبر پر رہی لیبر پارٹی اکثریت سے کافی دور ہونے کی وجہ سے ٹیریزہ مے کی سرکار بنانے میں دقت تو نہیں آئے گی مگر ان کی آگے کی راہ آسان نہیں ہے۔ ویسے برطانیہ کو یہ چناؤ ہندوستانی نژاد برطانوی لوگوں کے لئے اچھا نتیجہ لے کر آیا ہے۔ 2015ء میں جہاں ہندوستانی نژاد 10 لوگ پارلیمنٹ میں پہنچے تھے اس مرتبہ یہ تعداد 12 ہوگئی ہے۔ تمنجیت سنگھ اور پریت کور گل جیسے سکھ بھی پہلی بار چنے گئے ہیں۔ تمنجیت سنگھ برطانیہ میں پارلیمنٹ چنے گئے پہلے پگڑی دھاری سکھ ہیں جبکہ پریت کور پہلی سکھ ایم پی ہیں۔ ہندوستانی نژاد لوگوں کا چنا جانا بیحد اہم ہے۔ جو لوگ بریگزٹ کی مانگ کرتے تھے ان کی باتوں میں زہر پھیلا تھا وہ لوگ چاہتے تھے کہ اگلینڈ صرف ہمارے لئے ہے وہ لوگ 1950 سے پہلے کے (گورو کی اکثریت والے) برطانیہ کی بات کرتے تھے۔ بیشک سرکار کی یہی کوشش رہی ہے کہ برطانیہ کو ایسے دیش کی طرح پیش کیا جائے جہاں دنیا بھر کے مختلف تہذیبوں کے لوگوں کے لئے جگہ ہو لیکن پچھلے کچھ برسوں سے غیر پرواسی برطانیہ میں برننگ اشو رہا ہے۔ دنیا بھر سے تاریکین وطن برطانیہ پہنچتے ہیں بھارت اور آس پاس کے دیشوں سے بھی لوگ بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں رہنے والے کئی ہندوستانی اور پاکستانی لوگ دوسری تیسری پیڑھی کے ہیں۔ یہاں کی نوجوان پیڑھی یہیں پیدا ہوئی ہے۔ ان کے والدین بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش سے آئے تھے۔ بہرحال نئے چناؤ کے بعد برطانیہ کے سامنے سوال صرف یہ نہیں ہے کہ حکومت کون چلائے گا بلکہ یہ بھی ہے کہ بریگزٹ کے بعد کی چنوتیوں سے وہ کیسے نمٹے گا؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں