مودی سے خوفزہ مسلمان،صبر و امید رکھیں

فائر بینڈ ہندوتو لیڈر کی ساکھ رکھنے والے یوگی آدتیہ ناتھ اتر پردیش کی کمان سنبھالتے ہی ایکشن میں آگئے ہیں۔ ان کے وزیر اعلی بننے سے جہاں عام طور پر خوشی اور امید کا ماحول ہے وہیں مسلم فرقے میں تشویش پائی جاتی ہے کہ اب آگے کیا ہوگا؟ یوگی کی ساکھ سے یہ طبقہ خوفزدہ ہے۔ یوگی کے عہدہ سنبھالتے ہی کچھ مسلم کٹر پسند لیڈروں نے انہیں اور ڈرانا شرو ع کردیا ہے جبکہ ایسا کرنے کی فی الحال ہمیں کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ بیشک یوگی کی ساکھ ایک فائر بینڈ ہندوتو وادی کی ہے لیکن حلف لینے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے سب کو ساتھ لیکر چلنے اور بغیرامتیاز کے کام کرنے کا جو وعدہ کیا ہے اس پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ مسلمانوں کی تشویش دور کرنے کیلئے کئی مسلم دانشور بھی آگے آئے ہیں اور انہوں نے مثبت نظریئے کے ساتھ آگے بڑھ کر نئی حکومت کا خیر مقدم کرنے کی اپیل کی ہے اور امید جتائی ہے کہ بغیر امتیاز کے کام کاج ہوگا اور اکثریتی اور اقلیت میں کوئی فرق نہیں سمجھا جائے گا۔ ان کی رائے میں مسلمانوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک مثبت نظریئے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ بھاجپا’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے اس لئے امید کی جاسکتی ہے یوگی کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کریں گے۔ مسلم دانشوروں کا کہنا ہے کہ کئی بار سیاست میں سخت الفاظ کا استعمال ہوتا ہے لیکن جب ذمہ داری ملتی ہے تو پھر سب کو ساتھ لیکر چلنا پڑتا ہے۔ مشہور شاعر اور اردو سے وابستہ انور جلال پوری کہتے ہیں جمہوریت میں جنتا جو فیصلہ کرتی ہے اسے تسلیم کرنا چاہئے۔ کسی کے بارے میں اس کا کام دیکھے بغیر رائے قائم کرلینا غلط ہے۔ چناؤ کے وقت زبان الگ ہوتی ہے جیت کے بعد الگ۔ جب ذمہ داری ملتی ہے تو توازن بنا کرچلنا پڑتا ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں ہے کہ مسلمان مایوس ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک آئین سے چلتا ہے امید کیجئے کہ سب اچھا ہوگا۔ کرامت حسین پی جی کالج کے سابق پرنسپل اور مصنف صبا انور کہتی ہیں کہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں اور جنتا کا مینڈیٹ سر آنکھوں پر ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ یوپی کو بدلنے سے پہلے یوگی آدتیہ ناتھ خود کو بدلیں گے۔ ابھی تک یوگی بھلے ہی ایک ہندو وادی لیڈر رہے ہوں لیکن اب وہ یوپی کے وزیر اعلی ہیں۔ ریاست کے ہر طبقے کی ذمہ داری اب ان کے کندھوں پر ہے۔ اس میں ہندو مسلمان کو ہم الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ مجھے یقین ہے یوگی بھی ایسا ہی کریں گے۔ شیعہ کالج کے سینئر لیکچرر طالب زیدی کہتے ہیں کہ یوپی کی جنتا نے تبدیلی کے نام پر بھاجپا کو اقتدار سونپا ہے۔ باقاعدہ طور سے یوگی ایک کٹر وادی ہندو لیڈر ہیں مگر جو بھی اپنے مذہب کے تئیں کٹر ہوتا ہے وہ دوسرے مذہب کی بے حرمتی نہیں کرتا کیونکہ مذہب انسانیت کے خلاف بات نہیں کرتا۔ مسلمانوں کو بھاجپا یا یوگی کے تئیں اپنے نظریئے سے اوپر اٹھ کر مثبت آئیڈیالوجی کے ساتھ بڑھنا چاہئے۔ مہنت آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلی بننے پر اسلامی درسگاہ دارالعلوم سمیت دیو بند کے علماؤں نے کہا ہے کہ وزیر اعلی بنے کے بعد مہنت کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے سب کو ساتھ لیکر چلنے کا حلف لیا ہے اس لئے وہ اس کی عزت رکھیں۔ بتادیں مہنت آدتیہ ناتھ کا ٹریک ریکارڈ بھی اس معاملے میں بہت حوصلہ افزاء ہے۔ ان کا سب سے بھروسے مند سیوک ایک ہندوستانی بے سہارا مسلمان ہے جو بچپن سے ہی مہنت کے ساتھ رہا ہے۔ مہنت جی نے اسے اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے کی چھوٹ دے رکھی ہے۔ گورکھ ناتھ مندر کو عام طور پر لوگ صرف ہندوتو کا مرکز مانتے ہیں لیکن مندر کمپلیکس فرقہ وارانہ بھائی چارے کا مرکز بھی ہے۔ کمپلیکس میں کئی مسلم کنبے پیڑھیوں سے رہتے ہیں۔ گورکھ ناتھ مندر کا سب سے پرانا ملازم دوارکا تیواری ہے۔ گورکھ پیٹ کو اصلاح پسند روایت کا حصہ بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو لوگ گورکھ پیٹ کو اپنے ڈھنگ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں سماجی خدمت کے تئیں اشتراک کو دیکھنا ضروری ہے۔ ہم بس اتنا کہتے ہیں مسلمان بھائیوں مہنت آدتیہ ناتھ کو وقت دیں ، ابھی سے کوئی رائے قائم نہ کریں۔ یوگی جی کو بھی یہ ثابت کرنا ہوگا کہ مذہب کے نام پر، ذات کے نام پر اور فرقے کے نام پر اترپردیش میں کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوگا۔ سبھی کو یکساں مواقع ملیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟