جسٹس کرنن نے عدلیہ کی ساکھ داؤں پر لگائی

ہماری جوڈیشیری کی کامیابی یقینی طور سے بہت وسیع ہیں اور ہماری عدلیہ نے کئی طرح سے تاریخ رقم کی ہے لیکن گزشتہ ہفتے جو واقعہ ہوا ہے وہ ضرور پریشان کرنے والا ہے۔ اگر اسے مضحکہ خیز کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ میں بات کررہا ہوں کولکتہ ہائی کورٹ کے جسٹس سی۔ ایس۔ کرنن کی۔ ان کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے ، جس میں ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہے سپریم کورٹ آگے کیا کرے گا؟ مغربی بنگال کے ڈی جی پی سجیت دھر پرکائست جمعہ کو جب جسٹس کرنن کے خلاف ان کے گھر ضمانتی وارنٹ لے کر پہنچے تو جسٹس کرنن نے یہ وارنٹ لینے سے صاف انکار کردیا اور نہ ہی جسٹس کرنن نے کسی کاغذ پر دستخط کئے نہ ہی 31 مارچ کو سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔ الٹے جسٹس کرنن نے سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کو خط لکھ کرضمانتی وارنٹ خارج کرنے کی اطلاع دی۔ خط کو حکم بتاتے ہوئے انہوں نے لکھا جائز اسباب کی بنیاد پر وارنٹ (ضمانتی) خارج کرتا ہوں۔ ایک دلت جج کو پریشان کرنے کے لئے اسے نیچا دکھانے والے کام کئے جارہے ہیں۔ میری اپیل ہے کہ یہ ٹارچر بند کر ہماری عدالتوں کی ساکھ اور عزت بحال کریں۔ میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ میرے خلاف سپریم کورٹ نے وارنٹ جاری کر خود کو مذاق کا موضوع بنا لیا ہے۔ اب اس معاملے میں سپریم کورٹ کے سامنے بھی دھرم سنکٹ کھڑا کردیا ہے۔ سپریم کورٹ کسی بھی ہائی کورٹ کے جج کو ہٹا نہیں سکتا۔ کسی بھی جج کو ہٹانے کا ایک واحد طریقہ یہی ہے کہ اس کے خلاف پارلیمنٹ سے امپیچمنٹ پاس کیا جائے۔ ابھی تک ایک ہی موقعہ پر ایسا ہوا ہے اس میں بھی معاملہ پارلیمٹ کے ایک ایوان سے دوسرے ایوان تک پہنچتا ہے اس کے پہلے ہی جج موصوف نے خود ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ معامہ اتنے آگے جائے یہ کبھی کوئی نہیں چاہتا لیکن یہ معاملہ جس سطح پر پہنچ گیا ہے اس سے بہتر تو شاید امپیچمنٹ ہی رہتا۔ کچھ بھی ہو اس معاملے کو جلد ہی کسی انجام پر پہنچا کر ختم کرنا ہوگا ورنہ خود عدلیہ کی ساکھ بھی داؤں پر لگے گی۔ اس وجہ سے اس بار کوئی باہری عناصر نہیں ہے بلکہ اس کی اندرونی مکینیزم ہی ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟