جتنابڑاجرائم پیشہ اتنی بڑی اس کی پہنچ
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس جے۔ ایس۔ کھیر کے ایک تبصرے نے ہمارے عدلیہ سسٹم کی بدنصیبی اجاگر کردی ہے۔ جسٹس کھیر نے خود کہا ہے کہ ہمارا دیش بھی عجب ہے جہاں جرائم پیشہ شخص جتنابڑا ہوتا ہے اس کی پہنچ بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ جسٹس کھیر نے بدفعلی کے متاثرین اور تیزاب حملہ کے شکار یا اپنے گھر کے ایک واحد روزی روٹی کمانے والے شخص کو گنوانے والوں کے حالات پر حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا جرائم پیشہ افراد کے آخری قدم تک انصاف کے لئے پہنچ ہوتی ہے لیکن متاثرین کو یہ سہولت نہیں ملتی۔ ادارے کے سرپرست کے طور پر میری اپیل ہے کہ اس برس کو متاثرین کیلئے کام کا برس بنایا جائے۔ اس کے لئے معاون قانونی ورکروں کو بھی نچلی عدالت میں بھیج کر متاثروں کو ان کے حقوق کے بارے میں واقفیت کرائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آتنکی معاملوں کے قصورواروں کے لئے قانون کے تحت ہر ضروری قانونی مدد دستیاب ہے یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے بھی ہر متبادل کا استعمال کرنے کے بعد ہی انہیں قانونی مدد ملتی ہے۔ حقیقت میں چیف جسٹس 1993ء بم دھماکوں کے قصوروار یعقوب میمن کا ذکر کررہے تھے حالانکہ انہوں نے کسی خاص معاملے کا ذکر تو نہیں کیا لیکن ان کا اشارہ صاف تھا۔ جسٹس کھیر نے کہا کہ ہمارا دیش بھی عجب ہے جرائم پیشہ جتنا بڑا ہو ،بے چینی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے۔ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں قصوروار جس کی نظرثانی عرضی بھی خارج ہوگئی ،کے باوجود اس کے سپریم کورٹ انصاف کی اس حدتک گیا جہاں تک پہنچا جاسکتا تھا۔ بتادیں چیف جسٹس کا اشارہ ممبئی دھماکہ کے قصوروار یعقوب میمن کی طرف تھا جس معاملے میں رات کو آخری سماعت ہوئی کیونکہ اگلی صبح اسے پھانسی ہونی تھی۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ کسی متاثر کو قانونی حق کیلئے اس کے پاس جانے کی بات نہیں کرتا۔ عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ سبھی ملزمان کوئی وکیل دیاجاتا ہے۔ گرفتاری کے بعد سے ہی اس کے پاس قانونی مدد پہنچتی ہے۔
بدفعلی کا شکار متاثرہ کے بارے میں بھی چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ انہیں برسوں سے اس بات کا تعجب ہے کہ متاثرہ کا کیا ہوتا ہو؟ اس فیملی کا کیا ہوتا ہوگا جسے دیکھنے والا کوئی نہیں رہا؟ ہم کیوں نہیں ایسے متاثر تک پہنچ سکتے ہیں؟ جسٹس کھیر نے کہا کہ متاثروں کے لئے قومی سطح اور ریاستی سطح پر فنڈ تیار کرنے کیلئے پارلیمنٹ نے سی آر پی سی کی دفعہ 357-A شروع کی ہے۔ متاثروں کو معاوضے کے ساتھ ساتھ کسی بھی معاملے میں خاص کر جرائم کے معاملے میں نمائندگی ملنی چاہئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آتنکی معاملوں کے قصورواروں کے لئے قانون کے تحت ہر ضروری قانونی مدد دستیاب ہے یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے بھی ہر متبادل کا استعمال کرنے کے بعد ہی انہیں قانونی مدد ملتی ہے۔ حقیقت میں چیف جسٹس 1993ء بم دھماکوں کے قصوروار یعقوب میمن کا ذکر کررہے تھے حالانکہ انہوں نے کسی خاص معاملے کا ذکر تو نہیں کیا لیکن ان کا اشارہ صاف تھا۔ جسٹس کھیر نے کہا کہ ہمارا دیش بھی عجب ہے جرائم پیشہ جتنا بڑا ہو ،بے چینی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے۔ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں قصوروار جس کی نظرثانی عرضی بھی خارج ہوگئی ،کے باوجود اس کے سپریم کورٹ انصاف کی اس حدتک گیا جہاں تک پہنچا جاسکتا تھا۔ بتادیں چیف جسٹس کا اشارہ ممبئی دھماکہ کے قصوروار یعقوب میمن کی طرف تھا جس معاملے میں رات کو آخری سماعت ہوئی کیونکہ اگلی صبح اسے پھانسی ہونی تھی۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ کسی متاثر کو قانونی حق کیلئے اس کے پاس جانے کی بات نہیں کرتا۔ عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ سبھی ملزمان کوئی وکیل دیاجاتا ہے۔ گرفتاری کے بعد سے ہی اس کے پاس قانونی مدد پہنچتی ہے۔
بدفعلی کا شکار متاثرہ کے بارے میں بھی چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ انہیں برسوں سے اس بات کا تعجب ہے کہ متاثرہ کا کیا ہوتا ہو؟ اس فیملی کا کیا ہوتا ہوگا جسے دیکھنے والا کوئی نہیں رہا؟ ہم کیوں نہیں ایسے متاثر تک پہنچ سکتے ہیں؟ جسٹس کھیر نے کہا کہ متاثروں کے لئے قومی سطح اور ریاستی سطح پر فنڈ تیار کرنے کیلئے پارلیمنٹ نے سی آر پی سی کی دفعہ 357-A شروع کی ہے۔ متاثروں کو معاوضے کے ساتھ ساتھ کسی بھی معاملے میں خاص کر جرائم کے معاملے میں نمائندگی ملنی چاہئے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں