جیتے تو جنتا کا مینڈیٹ۔ہارے تو ای وی ایم قصوروار
جیتے تو جنتا کا مینڈیٹ۔ہارے تو ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کے الزام۔ اس طرح کے الزام عام طور پر چناؤ میں بری طرح سے ناکارہ ثابت ہوئے ہیں۔ نیتا و سیاسی پارٹیاں ایسے الزام لگاتے رہے ہیں۔ تازہ معاملہ حال ہی میں ہوئے پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کا ہے۔ بسپا چیف مایاوتی نے سب سے پہلے اپنی ہار کے پیچھے ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کو وجہ بتایا تو اکھلیش یادو نے کہا انہوں نے جوکا ہے اس کی جانچ ہونی چاہئے۔ کانگریس نے بھی اس کا نوٹس لیا تو اروند کیجریوال نے بھی الزام لگادیا کہ ای وی ایم کے ذریعے سے ان کے ووٹ اکالی دل اور کانگریس کو ٹرانسفر کردئے گئے حالانکہ اگر مشین کی کرپاسے ہی جیت اور ہار ہوتی تو بھاجپا کو کہیں بھی چناؤ ہارنا نہیں تھا۔ چناؤ کمیشن بار بار صفائی دے رہا ہے کہ اس طرح کے الزام بے بنیاد ہیں اور ای وی ایم کے ذریعے پولنگ پوری طرح سے محفوظ ہے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ای وی ایم سے چناؤ کرانے میں24 سال لگے ہیں، ہیکنگ کا آج تک کوئی ثبوت نہیں دے پایا پھر بھی یہ لوگ ایسے بیہودہ اور بے بنیاد الزامات لگانے سے باز نہیں آتے۔ انہیں اس بات کی بھی کوئی فکر نہیں کہ آپ کے الزاموں سے بھارت کا جمہوری عمل کمزور ہوتا ہے۔ چناؤ سسٹم میں جنتا کا اعتماد اور یقین بالاتر ہے۔ ای وی ایم کے نام پر اسے داغدار کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جانی چاہئے۔ ای وی ایم کے بارے میں کچھ بنیادی حقائق میں قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ای وی ایم میں انٹر نیٹ کا کوئی کنکشن نہیں ہوتا اس لئے اسے آن لائن ہوکر ہیک نہیں کیا جاسکتا۔ کس بوتھ پر کونسی ای وی ایم جائے گی اس کے لئے ریڈ مائی زون کی کارروائی ہوتی ہے اور سبھی ای وی ایم کو پہلے سے لوک سبھا حلقے کے مطابق پھر اسمبلی کے حلقے کے مطابق اور سب سے آخرمیں بوتھ وار مقرر کیا جاتا ہے اور پولنگ پارٹی کو ایک دن پہلے ہی ان مشینوں کو بھیجنے کے وقت کا پتہ چلتا ہے اور اس کے پاس کس سیریز کی ای وی ایم آئی ہے ایسے میں آخری وقت تک پولنگ پارٹی کو پتہ نہیں رہتا کہ ان کے ہاتھ میں کونسی ای وی ایم آنے والی ہے۔ بنیادی طور پر ای وی ایم میں دو مشینیں ہوتی ہیں، بیلٹ یونٹ اور کنٹرول یونٹ۔ حال ہی میں اس میں ایک تیسری یونٹ بھی وی وی پی اے ٹی کو بھی جوڑا گیا ہے جو 7سیکنڈ کے لئے ووٹر کو ایک پرچہ دکھاتی ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ ووٹر نے اپنا ووٹ کس پارٹی کو دیا ہے۔ ایسے میں پولنگ بوتھ پر ہی معلومات ہوسکتی ہے کہ اس کا ووٹ صحیح پڑا ہے یا نہیں۔ ووٹنگ سے پہلے سبھی ای وی ایم کی خفیہ طور پر جانچ کی جاتی ہے اور سبھی طرح سے صحیح پائے جانے کے بعد ہی ای وی ایم کو ووٹنگ کیلئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ سب سے بڑی بات ووٹنگ کے دن صبح پولنگ شروع ہونے سے پہلے پولنگ مرکز کی پولنگ پارٹی کے ذریعے سبھی امیدواروں کو پولنگ مرکز انچارج یا پولنگ ایجنٹ کے سامنے پولنگ شرو ع کرانے سے پہلے بناوٹی پولنگ کی جاتی ہے اور سبھی پولنگ ایجنٹ سے مشین میں ووٹ ڈالنے کو کہا جاتا ہے تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ سبھی امیدواروں کے حق میں ووٹ پڑ رہا ہے یا نہیں۔ ایسے میں اگر کسی مشین میں ٹیمپنگ یا تکنیکی گڑبڑی ہوگی تو پولنگ شروع ہونے سے پہلے ہی پکڑ لی جائے گی۔ ’موک‘ پولنگ کے بعد سبھی امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ پولنگ مرکز کی پولنگ پارٹی کے انچارج کو صحیح موک پول کا سرٹیفکیٹ دیتے ہیں۔ اس سرٹیفکیٹ کے ملنے کے بعد ہی متعلقہ پولنگ سینٹرمیں ووٹنگ شروچ کی جاتی ہے۔ ایسے میں جو امیدوار ای وی ایم میں ٹیمپرنگ کی بات کررہا ہے وہ اپنے پولنگ ایجنٹ سے اس بارے میں واقف ہوسکتے ہیں۔ پولنگ شروع ہونے کے بعد پولنگ مرکز میں مشین کی بیٹری ڈاؤن یا کوئی دیگر تکنیکی خرابی ہو لیکن ووٹر کے ذریعے مطلع کیا جاتا ہے ہر پولنگ مرکز میں ایک رجسٹر بنایا جاتا ہے اس رجسٹر میں پولنگ کرنے والے ووٹروں کی تفصیلات رہتی ہیں اور رجسٹر میں جتنے ووٹر کی تفصیل ہوتی ہے اتنے ہی ووٹروں کی تعداد ای وی ایم میں بھی ہوتی ہے ۔گنتی والے دن ان کا آپس میں ملان پولنگ انچارج کی رپورٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ میں ای وی ایم ٹمپرنگ سے متعلق جتنے بھی معاملے آج تک گئے ہیں ان میں سے کسی بھی معاملے میں ای وی ایم میں ٹمپرنگ ثابت نہیں ہوپائی۔ خود چناؤ کمیشن عام لوگوں کو بلاتا ہے کہ وہ لوگ چناؤ کمیشن میں جاکر ای وی ایم کی تکنیک کو غلط ثابت کرنے کے لئے اپنے دعوے پیش کریں لیکن پچھلے24 سال سے جب سے ای وی ایم ووٹنگ شروع ہوئی ہے آج تک کوئی بھی دعوی ثابت نہیں ہوا۔ جو لوگ اپنی ہار کے لئے ای وی ایم کو قصور وار ٹھہرارہے ہیں وہ بغیرثبوت ایسا صرف اس لئے کررہے ہیں تاکہ اپنے حمایتیوں کو گمراہ کر سکیں۔ شاید وہ محاسبہ کرنے سے بھی بچنا چاہ رہے ہوں اور اس سچائی کو تسلیم کرنے سے بھی اپنے ہار کے لئے وہ خود ذمہ دار ہیں ان نیتاؤں کو اپنی چناوی حکمت عملی کا تجزیہ کرنا چاہئے اور جمہوریت کی بنیاد پر بیہودہ الزامات سے بچنا چاہئے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں