سنگھ کے پرچارک سے وزیر اعلی بننے تک ترویندر سنگھ راوت

اتراکھنڈ میں ترویندر سنگھ راوت کی رہنمائی میں نئی حکومت نے ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ آر ایس ایس سے لیکر اتراکھنڈ کے 9ویں وزیر اعلی تک کا سفر طے کرنے والے ترویندر سنگھ راوت کے بارے میں کچھ باتیں بتانا چاہتا ہوں۔ ترویندر سنگھ راوت پوڑی ضلع کے جہری کھال بلاک خیراسون گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ دیو بھومی مانے جانے والے اتراکھنڈ نے ایک نہیں دو وزیر اعلی دئے ہیں ترویندر اور یوگی آدتیہ ناتھ۔یوگی کی بھی پیدائش اتراکھنڈ کی ہی ہے۔ ترویندر سنگھ کے والد پرتاپ سنگھ راوت ہندوستانی فوج کی بی ای جی رڑکی کور میں ملازم تھے۔ ترویندر سنگھ 9 بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ شروع سے ہی خاموش طبعیت والے ترویندر نے لیس ڈاؤن کے جہری کھال ڈگری کالج سے گریجویٹ اور گڑھوال یونیورسٹی شری نگر سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔شری نگریونیورسٹی سے ہی صحافت میں ایم اے کرنے کے بعد 1984 ء میں دہرہ دون چلے گئے۔ یہاں بھی انہیں آر ایس ایس میں اہم عہدوں پر ذمہ داری سونپی گئی۔ وہاں سنگھ کے پرچارک کا کردار نبھانے کے بعد ترویندر سنگھ راوت میرٹھ ضلع کے پرچارک بنے۔ ان کے کام سے سنگھ اتنا متاثر ہوا کہ انہیں اتراکھنڈ بننے کے بعد 2002ء میں بھاجپا ٹکٹ پر کانگریس کے ویریندر موہن انیال کے خلاف اتار دیا گیا۔ 2002ء میں ترویندر سنگھ نے ڈوئی والا سے پہلی بار اسمبلی چناؤ لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ 2017ء کے اسمبلی چناؤ میں راوت ایک بار پھرڈوئی والا اسمبلی چناؤ میں میدان میں اترے اور انہوں نے کانگریس کے ہیرا سنگھ بشٹ کو کراری شکست دی۔ بھاجپا کے قومی صدر امت شاہ اور پردھان نریندر مودی سے راوت کی نزدیکیوں اور سنگھ کے بھروسے مند سیوک ہونے کی وجہ سے وہ آج وزیر اعلی کی کرسی تک پہنچے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اور وزیر اعظم کو بھروسہ ہے کہ اتراکھنڈ ترویندر سنگھ راوت کے راج میں تیزی سے بدلے گا۔ اس لئے بھی ہریش راوت کے مقابلہ میں ترویندر ایک بیلاگ اور تیزی سے کوالٹی تبدیلیوں کے فیصلے لینے والے نیتا ہیں۔ لو پروفائل کے ہوتے ہوئے بھی کام کرنے میں استاد مانے جاتے ہیں پھر آج بھرپور اکثریت کے چلتے ان کی پوزیشن ہریش راوت جیسی ڈانواڈول یا حریفوں کی سازشوں کے اندیشے سے بھی آزاد ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ اتراکھنڈ میں بھاجپا کی غیر معمولی کامیابی کانگریس کے سرکردہ باغیوں کی مقبولیت و مضبوط مینڈیٹ کا بہت یوگدان رہا اسی وجہ سے 9 نفری کیبنٹ جس میں 7 کیبنٹ اور 2 وزیر مملکت کے وزیر ہیں۔کانگریس کے5 باغیوں کو بھی جگہ مل گئی ہے۔ دراصل اس چھوٹی سی پہاڑی ریاست کی بہادر جنتا نے جتنی قربانیاں اپنے ایک اعلی ریاست کے خواب کی تعبیر میں دی ہیں اس تناسب میں ان کی توقعات پوری کرنے کی آدھی ادھوری کوشش بھی اس ریاست کی لیڈر شپ نے نہیں کی ہے۔ امید یہی تھی کہ الگ ریاست بننے کے بعد اتراکھنڈ کی لیڈرشپ یہاں کے جغرافیائی پیچیدگیوں کے مطابق ترقی کا نیا ماڈل کھڑا کرے گی مگر ترقی کے محاذ پرکوشش تراہی کے علاقوں میں ٹیکس چھوٹ کا فائدہ حاصل کرنے میں لگے کچھ کارخانوں تک محدود رہی۔ یہاں کے لیڈر اپنی گدی کی پریشانی سے نہیں نکل پائے جیسا کہ چھوٹی ریاستوں کے ساتھ عام طور پر ہوتا ہے۔ ممبران اسمبلی کا چھوٹا سا گروپ بھی سرکار مضبوط کرنے کی صلاحیت پا کر سودے بازی میں لگ جاتا ہے۔ ذات اور علاقائیت کی بنیاد پر ترویندر سنگھ راوت کیبنٹ میں راوت عہد میں ٹھہر گئے اتراکھنڈ کو ترقی کے راستے پر لے جانے کے ساتھ ساتھ مودی کے اہم ٹارگیٹ 2019ء میں اقتدار کی واپسی طے کرنے کی دوہری ذمہ داری ہے۔ حلف برداری میں مودی سمیت بھاجپا کے تمام سرکردہ لیڈروں کی موجودگی کا یہی مطلب ہے۔ ہم شری ترویندر سنگھ راوت کو بدھائی دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ جنتا نے ان میں جو بھروسہ ظاہر کیا ہے وہ اس پر کھرا اتریں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟