ایودھیا سیاست کا معاملہ نہیں بلکہ عقیدت کا ہے

یہ صحیح ہے کہ رام مندر۔ بابری مسجدتنازعہ پر کئی بار سمجھوتہ کی کوشش ہوئیں ہیں لیکن وہ سبھی ناکام رہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ برسوں سے چلے آرہے اس مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش چھوڑدی جائے۔ سپریم کورٹ نے اس حساس ترین اور عقیدت سے وابستہ اشو پر فریقوں سے بات چیت کرکے مسئلے کا حل اتفاق رائے سے نکالنے کو کہا ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو عدالت کوئی حل نکالنے کیلئے ثالثی کو بھی تیار ہے۔ یہ ریمارکس منگلوار کو چیف جسٹس جے ۔ ایس ۔کھیر ، جسٹس ڈی۔ وائی چندرچور اور جسٹس سنجے کشن کول کی بنچ نے بھاجپا نیتا ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کی رام جنم بھومی تنازعہ معاملہ کی جلد سماعت کرنے کی مانگ پر دئے ہیں۔سوامی نے کورٹ سے کہا کہ معاملہ چھ برسوں سے التوا میں پڑا ہے اس مسئلے پر روزانہ سماعت کر جلد نپٹارہ کرناچاہئے۔ چیف جسٹس کھیر نے سوامی سے کہا کہ اتفاق رائے سے کسی حل پر پہنچنے کے لئے آپ نئے سرے سے کوشش کرسکتے ہیں۔ اگر ضرورت پڑی تو آپ کو اس تنازعے کو ختم کرنے کے لئے کوئی ثالث بھی چننا چاہئے۔ اگر فریق چاہیں تو میں دونوں فریقین کے ذریعے چنے گئے ثالثوں کے ساتھ بیٹھوں تو میں اس کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اس مقصد کیلئے میرے ساتھی ججوں کی خدمات بھی لی جاسکتی ہیں۔ عزت مآب عدالت نے 31 مارچ کو اگلی تاریخ مقرر کی ہے۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے جب سپریم کورٹ نے معاملہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے عدالتی کارروائی کی حد کو سمجھا ہے۔ اس سے پہلے 1994ء میں مرکز میں نرسمہا راؤ سرکار نے آئین کے سیکشن 143(A) کے تحت سپریم کورٹ کی رائے مانگی تھی اس پر پانچ ججوں کی بنچ نے سرکار سے پوچھا تھا کیا اس کی رائے کو حکم مان کر لاگو کیا جائے گا؟ مرکز کا کہناتھا کہ ایسی صورت میں وہ اپنی رائے نہیں دے گی کیونکہ معاملہ کافی حساس ترین ہے اس لئے یہ مانا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے منگلوار کو جو کہا وہ ایک طرح سے اس کی پہلی کی گئی بات کا ہی توسیع شدہ حصہ ہے۔فرق اتنا آیا ہے کہ اس درمیان اس مسئلے پر ہائی کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے اور اس فیصلے کو چنوتی دینے والی بہت ساری عرضیاں سپریم کورٹ میں پہنچ چکی ہیں ساتھ ہی یہ دباؤ بھی ہے کہ فیصلہ جلد ہونا چاہئے۔ دیش کی آزادی کے دو تین سال بعد سے چلے آرہے اس تنازعہ کو سلجھانے کا اس سے بہتر متبادل نہیں ہوسکتا لیکن جیسا کہ پہلے ہوتا آیا ہے سپریم کورٹ کی یہ رائے آنے کے ساتھ ہی اس مسئلے پر سیاست شروع ہوگئی ہے۔ سرکار کے ساتھ راشٹریہ مسلم منچ نے عدالت کی صلاح کا خیر مقدم کیا ہے لیکن بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا مثبت رویہ نہیں رہا۔ یہ کوئی ظاہرانہ نہیں ہے بلکہ ایک غیر معمولی بات ہے کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جس کا کوئی حل نہ ہو۔ آخر دنیا کے بڑے بڑے مسئلے یہاں تک کہ برسوں سے لڑی جا رہی جنگوں کا بھی مسئلہ میز پر بیٹھنے سے نکلتا ہے لیکن اب دقت یہ ہے کہ اس مسئلے سے پوری تاریخ جوڑ دی گئی ہے۔ تنازعہ کی تاریخ اور کشیدگی اور سیاست ، دوکانداری کی تاریخ جڑ گئی ہے۔ یہ لڑائی جو کبھی مقامی ہوسکتی تھی جذبات کے کھیل نے اسے قومی اشو بنا دیا ہے۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کے سیاسی مفادات اب اس مسئلے سے جڑ گئے ہیں۔ ان کے لئے اس مسئلے کے ختم ہوجانے کا مطلب ہوگا کہ ان کی دوکانداری و سیاست ختم ہوجائے گی۔عدالت کے باہر بات چیت کے ذریعے مسئلہ کے حل کی بات تبھی آگے بڑھ پاتی ہے جب دونوں فریقوں میں اتفاق رائے قائم ہوجائے۔ 
بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے وکیل ظفریاب جیلانی کا بیان تو یہی بتاتا ہے کہ مسئلہ آسان نہیں ہے۔ 60 سال کی قانون لڑائی کے بعد یکم اکتوبر 2010ء کو الہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ متنازعہ2.77 ایکڑ زمین کا ایک تہائی حصہ مسجد بنانے کے لئے وقف بورڈ کو دے دیا جائے حالانکہ اس فیصلے پر ہندوتووادی تنظیموں کے دعوے کومضبوط کرنے والا مانا گیا لیکن کوئی بھی فریق اس فیصلے سے مطمئن نہیں تھا۔ اس کے بعدسے مسئلہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جہاں فیصلہ کب آئے گا کون بتا سکتا ہے اس لئے بات چیت سے حل نکالنے کی چیف جسٹس کی تجویز کی اہمیت ظاہر ہے لیکن جہاں کوئی بھی فریق ذرا بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہو وہاں بات چیت کی پہل کرنا بھی ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ ایودھیا تنازعہ کو آپسی اتفاق رائے سے حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش شروع ہو پائے گی یا نہیں لیکن یہ خیال رہے کہ ایسی کوئی کوشش تبھی کامیاب ہوسکتی ہے جب بابری مسجد کے پیروکار رام جنم بھومی پر اپنا دعوی چھوڑنے کو تیار ہوں گے۔ جب تاریخی و آثار قدیمہ کے ثبوت متنازعہ جگہ میں مندر ہونے کی گواہی دے رہے ہیں اس کی کچھ حد تک تصدیق الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں بھی ہوچکی ہے لیکن وشو ہندو پریشد اور نرموہی اکھاڑے سے ایسی کوئی توقع کا مطلب نہیں کہ وہ بھائی چارگی کے نام پر مندر کے دعوے سے پیچھے ہٹ جائیں۔ ایسی توقع کی حیثیت اس لئے بھی نہیں ہے کیونکہ یہ معاملہ صدیوں پرانا ہے اور زمانے سے مسجد کے حمایتی بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ رام کا جنم ایودھیا میں ہوا تھا حالانکہ بابر یا پھر اس کے سیناپتی کا ایودھیا سے کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا پھر بھی اس قدیم نگری میں مسجد کی تعمیر ہوسکتی ہے یہ ٹھیک ہے ایودھیا تنازعہ کا حل نکالنے کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں، لیکن اسی بنیاد پر ایک اور کوشش سے پیچھے ہٹنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کی تجویز کو ایک نئے موقعہ کے طور پر لیا جانا چاہئے۔ یہ موقعہ توقع کے حساب سے نتیجہ دے سکتا ہے۔ کیونکہ ایودھیا مسئلہ اب سیاست کا اشو نہ رہ کر عقیدت کا اشو بن گیا ہے ۔ اگر بھگوان رام کا مندر ایودھیا میں نہیں بنے گا تو کہاں بنے گا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟