اتراکھنڈ میں 77 فیصد ووٹروں کی مرضی کے بغیر بنتی حکومتیں

پچھلے 17 برسوں میں اتراکھنڈ کو دیش کی سیاسی طور پر کمزور ریاست ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ اس دوران یہاں 8 مرتبہ وزیر اعلی بدلے جاچکے ہیں۔ ان وزرائے اعلی میں صرف ایک نارائن دت تیواری ہی اپنی پانچسالہ میعاد پوری کر سکے لیکن ان پانچ برسوں میں بھی ایسے کئی موقعے آئے جب لگا سرکار گرنے والی ہے۔ اتراکھنڈ میں سیاسی عدم استحکام کی شروعات ریاست کے پہلے وزیر اعلی کے ساتھ 2000ء میں جب اتراکھنڈ نئی پہاڑی ریاست بنی تبھی سے ہوگئی تھی۔ سال 2012ء کے چناؤ میں کانگریس اور بھاجپا کو برابر سیٹیں ملی تھیں ۔ اس مرتبہ کے چناؤ میں بھاجپا نے اتراکھنڈ کی سیٹوں کا اعلان کرتے ہی بغاوتی آوازوں کو ابھاردیا ہے۔ یہی رسہ کشی کانگریس میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ٹکٹ نہ ملنے سے ناراض کانگریس ورکروں نے دہرہ دون میں پردیش صدر نند کشور اپادھیائے اور وزیر اعلی ہریش راوت کے خلاف جم کر ہنگامہ نعرے بازی اور توڑ پھوڑ کی۔ کانگریس آفس میں یہ سلسلہ دو گھنٹے تک چلتا رہا۔ لگتا یہ ہے کہ اتراکھنڈ میں چناؤ مودی بنام ہریش راوت ہوگا۔ بھاجپا نریندر مودی کے چہرے پر ہی چناؤ لڑنے جارہی ہے۔ بھاجپا کے پاس وہاں وزیر اعلی کے عہدہ کے لئے کئی چہرے ہیں لیکن پارٹی کے حکمت عملی سازوں کا خیال ہے چہرے کا اعلان کرتے ہی پارٹی میں اندر خانے رسہ کشی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ اس کو دیکھتے ہوئے ہی بھاجپا چناؤ میں کوئی وزیر اعلی امیدوار کا اعلان نہیں کرنا چاہتی۔ یہ بھی صاف ہے کہ اتراکھنڈ میں بھاجپا کی سیدھی ٹکر کانگریس سے ہے اور کانگریس کا چہرہ بھی صاف ہے۔ وہاں ان کے لئے ہریش راوت ہیں۔ حال ہی میں راوت وزیر اعلی بھی ہیں اس سے پہلے بیچ میں وہاں صدر راج بھی نافذ رہا۔ اسے جمہوریت کی بدقسمتی کہا جائے یا کچھ اور دیو بھومی (اتراکھنڈ) میں جو سرکاریں بنی ہیں اب تک انہیں 77 فیصدی ووٹروں کی حمایت نہیں ملتی یا یوں کہیں تقریباً 15 سے33 فیصد ووٹروں کی حمایت پر حکومتیں بنتی رہی ہیں۔ حالانکہ چناؤ درچناؤ ووٹروں کا فیصد بڑھ رہا ہے مگر اب تک جو کامیاب ہے وہ پردیش میں ووٹروں کے کافی چھوٹے حصے کی حمایت پا کر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ وزیر اعلی کے امیدوار کا اعلان نہ کرے اور مودی کے نام پر چناؤ لڑنے سے بھاجپا کو جہاں کچھ فائدے نظر آرہے ہیں وہیں اس کے نقصان بھی ہیں۔بھاجپا کے ایک سینئر لیڈر نے مانا ہے بھاجپا میں نیتا اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ ان کی نجی خواہشات پارٹی پر بھاری پڑ سکتی ہیں۔ وزیر اعلی کے دعویداروں کے آپسی ٹکراؤ سے پارٹی کی دقتیں بڑھ سکتی ہیں۔ اس لئے کسی ایک کے نام پر چناؤ نہیں لڑنا چاہتی بھاجپا۔ بہرحال کانگریس میں ہریش راوت ہی ایک ایسا چہرہ ہیں جن کے دم پر کانگریس چناؤ لڑ رہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟