مغربی اترپردیش میں جاٹ لینڈ کی اہمیت

اترپردیش میں اسمبلی چناؤ کی شروعات مغربی اترپردیش سے ہوگی۔ یہاں پہلے دو مرحلوں میں 136 سیٹوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔ انہی سیٹوں سے ریاست میں اقتدار کے قریب پہنچنے والی پارٹی کی کافی حد تک قسمت طے ہوگی۔ 2012ء میں میرٹھ ، مراد آباد ،سہارنپور، بریلی، آگرہ اور علی گڑھ علاقے کی 136 سیٹوں میں سے سب سے زیادہ 58 سیٹیں پانے والی سماجوادی پارٹی کو اکثریت ملی تھی۔ 2012ء میں اس علاقے میں سپا کو 58 ، بسپا کو 39 اور بھاجپا کو 20 اور کانگریس کو8 اور آر ایل ڈی و دیگر کو 10 سیٹیں اور ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوا تھا۔ 2013ء کے مظفر نگر فسادات اور 2014ء میں مودی لہر نے اس پورے علاقے کا تجزیہ ہی بدل دیا تھا۔ ذات پات کے حساب سے اس علاقہ میں سب سے زیادہ 26 فیصدی مسلمان ہیں۔ اس کے بعد دلت 25 فیصد، جاٹھ 17 فیصد ،یادو 7فیصد ووٹر ہیں۔ کچھ سیٹوں پر مسلم ووٹروں کی تعداد30 فیصد سے زیادہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس پورے علاقے میں مسلمان ، دلت ،جاٹھ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ پہلے بات کرتے ہیں مسلم ووٹوں کی۔ سائیکل سمبل اکھلیش یادو کو ملنے کے بعد سے بھی یہ تصویر صاف نہیں ہے کہ پورا مسلم ووٹ سپا کو ہی ملے گا۔ بگڑے قانون و نظم کے حالات اور مظفر نگر دنگے کا درد اور بنتے بگڑتے سیاسی تال میل سے اترپردیش کا جاٹھ لینڈ انتظامیہ بیحد خفا ہے۔ چناؤ پر اس کا سیدھا اثر پڑ سکتا ہے۔ چودھری چرن سنگھ کی مضبوط وراثت کو ان کے لوگ سنبھال نہیں پائے اس کے چلتے پورے جاٹھ لینڈ کی پہچان کے لئے بحران پیدا ہوگیا ہے۔ فرقہ وارانہ بھائی چارگی کو کیا نظر لگی سماجی تانا بانا ہی بگڑ گیا۔ نئے سیاسی ماحول میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے تئیں اترپردیش کے جاٹھ لینڈ کا ایک ایسا بھروسہ جاگا کہ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں دیگر پارٹیوں کا اس پورے علاقے میں صفایا ہوگیا۔ یہاں کے ووٹروں میں پولارائزیشن سال در سال اور بڑھا ہے جو چھوٹی پارٹیوں کے لئے سنکٹ پیدا کرنے والا ثابت ہوسکتا ہے۔ جاٹھ لینڈ میں سپا کمزور ہے تو بسپا کے دلت بکھر گئے ہیں۔ آر ایل ڈی کا جاٹھ مسلم فارمولہ فرقہ وارانہ دنگے کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ کانگریس یہاں اپنا وجود تراش رہی ہے۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ کہتا ہے کہ ہم تو وکاس چاہتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آرہا ہے ہم کس کو وٹ دیں؟ وہ اکھلیش یادو کے کام کی تعریف ضرور کرتے ہیں لیکن بسپا بھی ان کی من پسند پارٹی ہے وہ چاہتے ہیں کہ سبھی سیکولر پارٹیاں ایک ساتھ آکر چناوی اکھاڑے میں اتریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم ووٹوں کا بکھراؤ نہ ہو۔ ایک باشندے کا کہنا تھا کہ سبھی سیاسی پارٹی ہر چناؤ میں نوجوانوں کو روزگار دینے کا دھلاسا دیتی ہیں لیکن چناؤ کے بعد وہ اپنے وعدے سے مکر جاتی ہیں۔ اس لئے وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ اس بار وہ بسپا کو اقدار میں لانا چاہتے ہیں۔ خلیل آباد کے باشندے بدی العظمیٰ نوٹ بندی کو لیکر بیحد پریشان ہیں۔ اس کے اثر نہیں ان کے کاروبار کو چوپٹ کردیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں کس کو ووٹ دوں؟ سپا کو یا پیس پارٹی کو۔ یہ مشکل بنی ہوئی ہے۔محمد صدیق کہتے ہیں میرا بھروسہ سبھی سیاسی پارٹیوں سے اٹھ گیا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سبھی اپنے من کی کرتی ہیں۔ میں تو آزادی کے بعد سے ہی سبھی پارٹیوں کو آزماتا آرہا ہوں لیکن کسی نے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیا۔ کانگریس ہو یا سپا بسپا یا بھاجپا سبھی حمام میں ننگے ہیں۔ صرف مسلم ووٹوں کو حاصل کرنے کے لئے وہ سیکولر کا لبادہ اوڑھ لیتی ہیں اور پھر وہی کرتی ہیں جو انہیں کرنا ہے۔ مہدی خان چاہتے ہیں کہ مسلم ووٹوں کا بکھراؤ روکنے کے لئے سبھی سیکولر پارٹیوں کا مہا گٹھ بندھن بننا چاہئے لیکن تازہ تصویر سے صاف ہورہا ہے کہ ایسا گٹھ بندھن بننا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ آج کی تاریخ میں مسلمانوں کا جھکاؤ کسی ایک پارٹی نہیں بلکہ کئی پارٹیوں کی طرف نظر آرہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!