کسان کے ووٹ تو چاہئیں لیکن ان کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں

اترپردیش میں سات مرحلوں میں ہونے جارہے اسمبلی انتخابات میں کسان بھاگیہ ودھاتا کے رول میں ہو سکتے ہیں۔ سیاسی پارٹی وکاس اور جن سروکار کے اشوز کو درکنار کر جیتنے والے امیدواروں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کوئی سوشل انجینئرنگ بنام چناؤ میں اول آنے کے چکر میں ہے تو کوئی پارٹی ذات اور مذہب کی بنیاد پر میدان مارنا چاہتی ہے۔ کسی کو اکثریتی ووٹوں کے سہارے لکھنؤ کے تاج تک پہنچانا ہے تو کوئی اقلیتوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے فراق میں ہے۔ کوئی اتحاد کے سہارے تو کچھ ووٹوں کے بٹوارے کے سہارے امیدیں لگائے بیٹھا ہے۔ وکاس ،گڈ گورننگ، تعلیم، مہلا سکیورٹی اور روزگار جیسے برننگ سوال سیاسی پارٹیوں کے چناؤ منشور کی زینت بن رہے ہیں۔ یوپی میں پہلے مرحلہ کی تو پوری سیاست ہی کسانوں پر مرکوز ہے اور اس پر سبھی پارٹیوں کی اتنی توجہ نہیں ہے۔پوروانچل کے پچھڑے پن کی آواز تقریباً ہر اسمبلی سیشن میں اٹھتی رہی ہے لیکن جب گنا کسانوں کی مشکل کی بات ہوتی ہے تو مغربی اترپردیش کے گنا کسانوں پر سیاست گرم ہوجاتی ہے۔ پورب میں گنا بیلٹ کی بدحالی پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ دیوریا، کشی نگر ،گورکھپور، سنت کبیر نگر وغیرہ کے زیادہ تر چینی ملیں بند ہیں۔اس علاقہ کے ہزاروں کسان کنبوں کے لئے گنے کی فروخت ہی مالی ذریعہ ہوتا ہے اب وہاں بدحالی کا عالم یہ ہے کہ آج پیداوار کے معاملے میں یوپی دیش کا ہی نہیں بلکہ ایشیا میں اول ہے اس کے باوجود آلو کسانوں اور کاروباریوں کے لئے پریشانیاں سیاسی پارٹیوں کے چناوی ایجنڈے میں نہیں رہتیں۔ اس بار آلو کی بدحالی کا حال یہ ہے کہ کسانوں نے اسمبلی کے سامنے آلو پھینک کر احتجاج کیا۔ پردیش میں آج بھی بڑی آبادی کھیتی پر منحصر ہے۔ ان کی بہتری کے لئے ہر برس مرکز اور ریاستی سرکار کے بجٹ کا منہ کھول جاتا ہے لیکن جب دھان اور گیہوں کی لاگت کی قیمت اور بیج اور ذرعی کیمیکل کی دستیابی اور گنے کے بقایا رقم کی ادائیگی نہ ہونے اور سنچائی کی سہولت نہ ملنے کے احتجاج میں کسان آندولن کرتا ہے تو سرکار کے مالی دستاویزات کی پول کھلتی نظر آتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں یہ تو کہتی ہیں ذراعت ریاست کی معیشت کی ریڑھ ہے لیکن سرکار کی پالیسیوں میں اسے اہمیت کیوں نہیں ملتی یہ اپنی سمجھ سے باہر ہے۔ گنے کی فصل کی ادائیگی وقت پر نہ ہونے کے سبب کسان پریشان ہے۔ لاگت بھی نہیں مل پا رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں بجلی نہ مل پانا بھی ایک بڑی پریشانی ہے۔ نہروں میں پانی ٹیوب ویل تک نہیں پہنچ پاتا۔ بدقسمتی سے ان سبھی پارٹیوں کو کسانوں کے ووٹ تو چاہئیں لیکن ان کی پریشانی پر کسی کوکوئی دلچسپی نہیں ہے۔
(انل نریندر) 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟