سپا کانگریس اتحاد سے لڑائی سہ رخی بن گئی ہے

آخر کار ٹوٹتے ٹوٹتے سماجوادی پارٹی و کانگریس کا اتحاد ہوہی گیا ہے۔ دراصل سنیچر کے دن 11 بجے تک اتحاد ہو گا یا نہیں ہوگا کو لیکر شش و پنج کی صورتحال بنی ہوئی تھی اور ایتوار کی صبح 11 بجے تک اتحاد پر فائنل مہر لگ گئی۔ اس درمیان لکھنؤ سے دہلی کے درمیان سپر سسپنس سیاسی تھلر کی طرح پورا معاملہ چلا۔ سپا نے کانگریس کو105 سیٹیں دی ہیں اور وہ خود298 سیٹوں پر چناؤ لڑے گی۔ دراصل اتحاد کرنا ایس پی اور کانگریس دونوں کی مجبوری تھی۔ سپا کیلئے اس لئے ضروری ہوگیا تھا کیونکہ کنبے کے جھگڑے کے بعد یہ خیال بننے لگا تھا کہ وہ مقابلے سے باہر ہوگئی ہے۔ ایسے میں تمام مسلم ووٹ بسپا میں شفٹ ہونے کے امکانات دکھائی دینے لگے۔ اس سے سپا کا بھٹہ بیٹھ جانے کا خطرہ تھا۔ اتحاد سے سماجوادی پارٹی میں مسلمانوں کو یہ سندیش دینے کی کوشش کی ہے کہ ایک قومی پارٹی اس کے ساتھ ہے اور دونوں ملکر بھاجپا کو ہرا سکتی ہیں۔ اس سے مسلم ووٹ اس کی جھولی سے کھسکنے سے بچ گیا ہے؟ یہ ضرور ہے کہ جہاں اتحاد کا امیدوار کمزور ہوگا وہاں مسلم ووٹ بہوجن سماج پارٹی کے پالے میں جاسکتا ہے۔ گٹھ بندھن نہ ہونے پر مسلمان ایک طرفہ بی ایس پی کی طرف جا سکتے تھے۔ دوسری جانب کانگریس کے پاس کچھ کھونے کو نہیں ہے۔ کانگریس کی حالت قابل رحم بن گئی ہے۔ راہل گاندھی کے ایک مہینے کے دورے کے باوجود پارٹی نے ایک دم چھوٹے سانجھے دار کی شکل میں سمجھوتہ کیا ہے تو اس کا کچھ تو مطلب ہے۔ حقیقت میں کانگریس تاریخ میں سب سے کم سیٹوں پر اترپردیش میں چناؤ لڑنے جارہی ہے۔ 1996ء میں بسپا کے ساتھ اس کا اتحاد ہوا تھا تب بھی وہ 125 سیٹوں پر چناؤ لڑی تھی۔ اتنی کم سیٹوں پر لڑنا اس بات کا ثبوت ہے کہ کانگریس اترپردیش میں کس کمزور پوزیشن میں ہے۔ اتحاد کے بعد کانگریس ۔ سپا دونوں خیموں کے لیڈروں نے راحت کی سانس لی ہے۔ دونوں کے درمیان غلط فہمی دور کرنے میں پٹنہ سے ممبئی تک کے لوگ ثالثی کررہے تھے۔ لالو پرساد یادو نے اکھلیش کو نرم کیا تو احمد پٹیل کو بھی سمجھایا۔ نغمہ نگار جاوید اختر بھی دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کو منانے میں لگے رہے۔ عمر عبداللہ نے بھی کانگریسی لیڈروں کو اتحاد کی صلاح دی۔ ایتوار کی رات اکھلیش یادو اور پرشانت کشور ملے اس کے بعد احمد پٹیل نے پرینکا اور راہل گاندھی سے بات کی۔ صبح سویرے3 بجے پرینکا گاندھی اور اکھلیش کی بات کرائی گئی۔ اس کے بعد اکھلیش نے صبح کانگریس کے لیڈروں کو بلایا اور وہاں بات فائنل ہونے کے بعد پارٹی لیڈر شپ کو فائنل ڈرافٹ بھیجا گیا جس پر دونوں پارٹیوں نے رضامندی دے دی۔ سپا اور کانگریس کے درمیان اتحاد ہونے کے بعد اب یوپی میں چناوی لڑائی سہ رخی ہونا بالکل صاف ہوگیا ہے۔ ووٹروں کے سامنے خاص طور سے تین متبادل ہوں گے۔ بی جے پی، بی ایس پی اور سپا ۔کانگریس اتحاد اب پہلے جیسی پوزیشن شاید نہ ہو۔ اگر سماجوادی پارٹی اکیلے چناؤ لڑتی تو تقریباً دو تہائی مسلم اس کے ہاتھ سے نکل جاتا اور وہ شاید بی ایس پی کو چلا جاتا۔ اب مسلم ووٹروں کی پہلی ترجیح بی جے پی کو ہرانے کی ہوگی جہاں اسے سپا ۔کانگریس اتحاد کا امیدوار مضبوط دکھائی دے گا اسے ووٹ کریں گے اور جہاں بسپا کا ہوگا اسے ووٹ دیں گے۔یعنی جہاں بی ایس پی جیت رہی ہوگی وہاں بی ایس پی کے ساتھ اور جہاں اتحادی امیدوار کامیاب ہوتا دکھائی دے گا وہاں وہ اس امیدوار کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اس میں بھی ایک پینچ ہے کچھ سیٹوں پر ایس پی ۔کانگریس اتحاد اور بی ایس پی دونوں نے مسلمان امیدوار اتار دئے ہیں۔ یہاں مسلم ووٹ کٹنے کا خطرہ ہے۔ مسلمانوں کے درمیان غلط فہمی ہوگی کہ کس کو ووٹ دیں۔اتحاد نہ ہونے پر مسلمانوں کے بی ایس پی کے ساتھ ایک طرفہ جانے سے بھاجپا کی اقتدار میں واپسی کی لڑائی بیحد مشکل ہوجاتی۔ دلت ۔ مسلم تجزیہ سب پر بھاری پڑتا ہے۔ بی جے پی مسلم ووٹوں میں بکھراؤ بنائے رکھنے کی حکمت عملی کے تحت شروع سے ہی اپنی لڑائی سماجوادی پارٹی سے بتاتی آرہی ہے۔ وہ بی ایس پی کو کبھی اہم لڑائی میں مانتی نہیں ہے۔ اب مقابلہ سہ رخی ہونا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟