نئے فوجی سربراہ کی تقرری پر بے مطلب کا تنازع!\

فوجی سربراہ کے عہدے پر لیفٹیننٹ جنرل وپن راوت کی تقرری کو لیکر تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ اس طرح ایک بار پھر نریندر مودی سرکار اہم عہدوں پر تعیناتی کو لیکر اپوزیشن کی نکتہ چینی کی زد میں آگئی ہے۔ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں نے دو اعلی جنرلوں کو نظرانداز کرکے لیفٹیننٹ جنرل راوت کو فوجی سربراہ بنائے جانے کو فوج میں غلط روایت کی شروعات اور فوجی افسران کے حوصلہ پر منفی اثر ڈالنے والا فیصلہ بتایا ہے۔ ان پارٹیوں کا ماننا ہے کہ دو اعلی فوجی افسران کو درکنار کرکے لیفٹیننٹ جنرل راوت کو ترجیح دی گئی لہٰذا ان کی تقرری متنازع ہے۔ ہماری رائے میں یہ تنقید بھی صحیح نہیں اور اس سے بچنا چاہئے۔ نئے فوجی سربراہ کی تقرری و چناؤ سرکار کا خصوصی اختیار ہے۔ بیشک اس میں سینئرٹی کا دھیان رکھا جاتا ہے لیکن وہ اکلوتی آخری وجہ ہوتی ہے تو پھر سرکار کے فیصلے کی شاید ہی کوئی درکار ہی نہیں تھی۔ سینئر افسر کو اپنے آپ فوجی سربراہ مان لیا جاتا کیونکہ ایسا نہیں ہے اس لئے اپنے وقت میں ہر سرکار کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام پہلوؤں کو دھیان میں رکھتے ہوئے سب سے مناسب شخص کااس عہدے پر تقرر کرے۔ اپوزیشن کو سرکار کے کام کاج کی تنقید کرنے کا لوک تانترک اختیار ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سرکار کہ ہر قدم اور خاص کر فوج سے متعلق مسئلوں پر بھی تنقیدی رخ اپنائے۔ سیاسی پارٹیوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ فوج کے کام کاج کی جوابدہی سرکار کی ہوتی ہے اگرفوج کسی جنگ میں ناکام ہوتی ہے تو آخر کار یہ سرکار کی ہار مانی جاتی ہے۔ اس لئے اگر سرکارسینئر کے مقابلے کسی جونیئر افسر کو زیادہ باصلاحیت اور زیادہ اہل مانتی ہے تو اسے چننے کا حق بھی ملنا ہی چاہئے۔ موجودہ سرکار نے بھی اپنی سمجھ سے ایسا کیا ہے اور اس پر اعتراض کی کوئی وجہ ہمیں تو نظر نہیں آتی۔ دوسری جانب فوجی سربراہ کے عہدے پر تقرری کے سوال کو ہلکے میں لینا بھی شاید ٹھیک نہیں ہے۔ یہ پہلا موقعہ ہے جب ایک نئی دو دو اعلی جنرلوں کو درکنار کرتے ہوئے تیسرے افسر کو یہ عہدہ دیا گیا۔ اس سے پہلے صرف ایک بار جنرل ایس۔ کے۔ سنہا کی سینئرٹی کو اندیکھا کرتے ہوئے جنرل ارون وید کی تقرری کی گئی تھی۔ حالانکہ اس وقت کی اندراگاندھی سرکار نے مبینہ طور پر جنرل سنہا کے سیاسی خیالات کے چلتے یہ فیصلہ کیا تھا پھر بھی اسے اچھی مثال کے طور پر یاد نہیں کیا جاسکتا۔ دراصل سبھی فوجی افسر اہل ہوتے ہیں لیکن کئی افسروں پر خصوصی صلاحیت کو دھیان میں رکھ کر ہی فیصلے ہوتے ہیں۔ موجودہ وقت میں پاک اور چین سے ہمارے رشتے کشیدہ ہیں اور جنرل راوت دونوں سے ہی نمٹنے میں زیادہ موزوں لگتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!