سرکار کو راحت :نوٹ بندی میں دخل سے انکار
مودی سرکار کے نوٹ بندی کے فیصلے پر سرکار کو سپریم کورٹ نے راحت دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس پر دخل نہیں دے گی۔ نوٹ بندی کے فیصلے کو سرکاری خزانہ نیتی قراردیتے ہوئے سپریم کورٹ نے فی الحال اس میں دخل دینے سے انکارکردیا۔ نوٹ بندی کا مدعہ سیاسی اور سماجی طور سے اہم تو ہے ہی اب یہ قانونی طور سے بھی اہم ہو گیا ہے۔ گذشتہ نومبر کو 500 اور 1000 روپے کے نوٹ چلن سے باہر کرنے کے بعد عوام الناس کے دل میں یہی سوال تھے جو شکروار کو سپریم کورٹ نے بھی اٹھائے۔ آخرکسی شہری کو پراپرٹی کے حق سے کیسے محروم کیا جاسکتا ہے؟ ایسا مناسب قانونی عمل سے کیا جاسکتا ہے لیکن مرکز ی سرکار کے ذریعے اٹھائے گئے قدم آئین اور قانون کی نظر میں کتنے ٹکتے ہیں اس پر عام لوگوں کے ساتھ ساتھ قانون کے جانکاروں کی نگاہیں بھی لگی ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی ہدایت دی کہ نوٹ بندی سے متعلق مختلف ہائی کورٹوں اور دیگر عدالتوں میں چل رہے مقدموں کو اب صرف سپریم کورٹ ہی سنے گی۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو پانچ ممبری آئینی بینچ کے پاس بھیجتے ہوئے اس کے سامنے ٹیسٹ کے لئے 9 سوال رکھے ہیں۔ یہ فیصلہ بینچ نے اس لئے لیا ہے کہ نوٹ بندی کو لیکر الگ الگ اختلافی آرڈر سے دو چار نہ ہونا پڑے۔عدالت عظمیٰ نے 24 ہزار روپیہ فی ہفتے بینک سے نکالنے کی حد میں بھی کوئی ترمیم نہیں کی۔
عدالت عظمیٰ نے امید جتائی ہے کہ سرکار عام جنتا کو ہو رہی مشکلات کو دھیان میں رکھتے ہوئے جتنا ممکن ہوسکے گا اپنے اس وعدے کو پورا کرے گی۔ اٹارنی جنرل نے قبول کیا کہ پرانے نوٹوں کے بدلنے میں کچھ گڑبڑیاں سامنے آئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں پانچ ممبری آئینی بینچ کی جانچ کے لئے 9 سوال رکھے ہیں کیا 8 نومبر کو جاری نوٹیفکیشن آر بی ایکٹ کی دفعہ 26(2),7,17 وغیرہ کی خلاف ورزی ہے۔ کیا نوٹیفکیشن آئین کی دفعہ 300(a) کی خلاف ورزی ہے؟ اگر یہ مانا جائے کہ یہ آر بی ایکٹ کے تحت جائز ہے لیکن کیا یہ آئین کی دفعہ 14 اور 19 کے خلاف تو نہیں ہے۔ کیا 8 نومبر کا نوٹیفکیشن اور اس کے بعد جاری نوٹیفکیشن کی عمل آوری میں خامیاں ہیں یا وہ غیر معقول تو نہیں ہیں؟ بینکوں۔ اے ٹی ایم سے رقم نکاسی کی حد طے کرنا حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں؟ کورٹ مالی پالیسیوں میں دخل دے سکتا ہے؟ کیا کوآپریٹیو بینکوں پر لگائی گئی روک مناسب ہے؟ کیا آئین کی دفعہ ۔32 کے تحت سیاسی پارٹیاں اپیل دائر کرسکتی ہیں؟ اور آخر میں اگر دفعہ ۔26 کے تحت نوٹ بندی کی اجازت دی گئی تو کیا ایگزیکٹیو پاور کا ضرورت سے زیادہ استعمال تو نہیں؟ کیا اس وجہ سے یہ آئین کے خلاف تو نہیں؟
عدالت عظمیٰ نے امید جتائی ہے کہ سرکار عام جنتا کو ہو رہی مشکلات کو دھیان میں رکھتے ہوئے جتنا ممکن ہوسکے گا اپنے اس وعدے کو پورا کرے گی۔ اٹارنی جنرل نے قبول کیا کہ پرانے نوٹوں کے بدلنے میں کچھ گڑبڑیاں سامنے آئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں پانچ ممبری آئینی بینچ کی جانچ کے لئے 9 سوال رکھے ہیں کیا 8 نومبر کو جاری نوٹیفکیشن آر بی ایکٹ کی دفعہ 26(2),7,17 وغیرہ کی خلاف ورزی ہے۔ کیا نوٹیفکیشن آئین کی دفعہ 300(a) کی خلاف ورزی ہے؟ اگر یہ مانا جائے کہ یہ آر بی ایکٹ کے تحت جائز ہے لیکن کیا یہ آئین کی دفعہ 14 اور 19 کے خلاف تو نہیں ہے۔ کیا 8 نومبر کا نوٹیفکیشن اور اس کے بعد جاری نوٹیفکیشن کی عمل آوری میں خامیاں ہیں یا وہ غیر معقول تو نہیں ہیں؟ بینکوں۔ اے ٹی ایم سے رقم نکاسی کی حد طے کرنا حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں؟ کورٹ مالی پالیسیوں میں دخل دے سکتا ہے؟ کیا کوآپریٹیو بینکوں پر لگائی گئی روک مناسب ہے؟ کیا آئین کی دفعہ ۔32 کے تحت سیاسی پارٹیاں اپیل دائر کرسکتی ہیں؟ اور آخر میں اگر دفعہ ۔26 کے تحت نوٹ بندی کی اجازت دی گئی تو کیا ایگزیکٹیو پاور کا ضرورت سے زیادہ استعمال تو نہیں؟ کیا اس وجہ سے یہ آئین کے خلاف تو نہیں؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں