نوٹ بندی سے چھنتا روز گار
ملک میں معاشی معاملوں کے کئی ماہرین دعوی کررہے ہیں کہ نوٹ بندی سے آئندہ وقت میں ملک کے معاشی حالات سدھریں گے اور معاشیات کالے دھن سے پاک ہونے کی وجہ سے مضبوط ہوگی۔ بیشک ایسا ہو بھی سکتا ہے لیکن فی الحال تو ہمیں نوٹ بندی کی وجہ سے کئی دقتیں نظر آرہی ہیں۔اس کے برے نتائج سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ سرکار کی نوٹ بندی سے عام لوگوں و مزدوروں کے روبرو روزی روٹی کا مسئلہ کھڑا ہوگیاہے۔ ملک کے مختلف حصوں سے مزدوروں کے بے روزگار ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ دہلی پردیش کانگریس کمیٹی نے مرکزی سرکار پر حملہ بولتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ نوٹ بندی کے فیصلے نے دہلی میں بے روزگاری بڑھا دی ہے۔ دہلی پردیش ادھیکش اجے ماکن نے کہا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے 48.63 لاکھ غیر منظم مزدوروں کا روزگار چھننے کی کگار پر ہے۔ ان پر بے روزگاری کی تلوار لٹک گئی ہے۔ ماکن نے کہا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے خوردہ بکری میں 88-90 فیصدی تک کمی آئی ہے۔ پیداوار میں 80 فیصدی تک کمی آئی ہے جس کے نتیجے میں نوکریوں میں کمی آنے کی وجہ سے بے روزگاری بڑھی ہے۔ کالے دھن پر وزیر اعظم نریندر مودی کی ’’سرجیکل اسٹرائک‘‘ کے بعد 1857 کی میرٹھ کا صرافہ کاروبار سونا۔چاندی کے زیورات بنانے کے کاروبار کی حالت بہت ہی خراب ہو گئی ہے وہیں پشچمی بنگال میں اور مہاراشٹر سے آکر زیورات بنا کر خاندان کا پیٹ پالنے والے 30 ہزار سے زیادہ کاریگر اب روزی روٹی کے مسئلے سے جوجھ رہے ہیں۔ نوٹ بندی کی وجہ سے پشچمی بنگال میں دو بیڑی کارخانے بند ہوگئے ہیں۔ ایک کارخانے کے مالک ریاست کے وزارت محنت کے وزیر مملکت ذاکر حسین خود ہیں۔ دونوں کارخانے مرشید آباد ضلع میں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ نوٹ بندی کی وجہ سے نقد میں کاریگروں کو ادائیگی میں قاصر رہنے کے بعد کارخانہ مالکوں نے تالہ بندی کا فیصلہ کیا ہے۔اس میں قریب پونے تین لاکھ مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ سرکار کی نوٹ بندی سے عام لوگوں و مزدوروں کے الگ الگ مسئلے پیدا ہوگئے ہیں۔ نوٹ بندی کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں و دوکانوں کی مرمت بھی نہیں کرا پارہے ہیں جس سے دیہاڑی مزدوروں کے سامنے کام نہ ملنے سے روزی روٹی کا مسئلہ گہرانے لگا ہے۔ شہری و دیہی علاقوں میں پھیرے لگا کر روز مرہ کے ضروری سامان بیچنے والے الگ پریشان ہیں۔بازار پرمندی کی مار پڑی ہوئی ہے۔ شادی بیاہ کا سیزن ہونے کے باوجود ویاپاری گراہک کے نہ آنے سے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں۔ نوٹ بندی کی مار سے اناج منڈی بھی نہیں بچی ہے۔ کئی دنوں سے نئے نوٹ نہ ہونے کی وجہ سے منڈی کا کاروبار ٹھپ پڑا ہے۔ نوٹ بندی کی وجہ سے بڑی تعداد میں روز گار چھننے کی اطلاعات سے سرکار بھی پریشان ہے۔ حالات کا اندازہ کرنے کے لئے وزارت محنت و روزگار کے اعلی افسران کو پورے ملک میں بھیجا جارہا ہے۔ سرکار ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اس کے پاس روزگار سے متعلق جو اعدادو شمار ہیں وہ ستمبر تک کے ہیں جس میں نوٹ بندی کے بعد روزگار پر پڑے اثر کا اندازہ ابھی تک نہیں ہوپا رہا ہے۔ روزگار کے اعدادو شمار سہ ماہی ہی مل پاتے ہیں جو سرکاری طور پر جنوری میں ہی دستیاب ہو سکیں گے۔ وزارت محنت و روزگار کو یہ خبر پہنچ چکی ہے کہ نقدی کی کمی کے چلتے بہت بڑی تعداد میں چھوٹے اور درمیانہ سطح کی صنعتی اکائیوں میں بندی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ سرکار کو بھی لگاتار یہ جانکاری مل رہی ہے کہ کھیتی ہر مزدور سے لیکر تعمیری صنعت اور سروس سیکٹر کا بڑا برا حال ہے۔ وہاں یا تو بڑی تعداد میں روزگارچھن گئے ہیں یا پھر ہاتھ سے نکلنے کی حالت میں پہنچ گئے ہیں۔ عمارتی تعمیر ، ٹورازم ، صنعت اور ہوٹل میں کام کافی متاثر ہوا ہے۔ کام گھٹ کر 30 فیصد پر آجانے سے بڑے پیمانے پر چھٹنی کے آثار بنے ہیں۔ لارسن اینڈ ٹوبرو جیسی بڑی کمپنی نے اپنے 14 ہزار ملازمین کو نوکری سے نکال دیا ہے۔ کل ملا کر ہمیں تو نوٹ بندی سے ملک آئندہ کچھ وقتوں کے لئے ابھی تو بری طرح متاثر ہوتا نظر آرہا ہے ، جب فائدہ ہوگا تب ہوگا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں