پے ٹی ایم کا استعمال کتنا محفوظ

وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے نوٹ بندی کا اعلان کرنے کے بعد سب سے زیادہ فائدہ جن کمپنیوں کو ہوتا دکھائی دے رہا ہے ان میں موبائل پیمنٹ کی سہولت دینے والی کمپنی ’پے ٹی ایم‘ بھی ہے لیکن کیا پے ٹی ایم 100 فیصد محفوظ ہے؟ کیا پے ٹی ایم پر بھروسہ کرنا صحیح ہے؟ آر ایس ایس سے متعلقہ تنظیم نے سوال اٹھائے ہیں پے ٹی ایم میں چین کی کمپنی کی حصہ داری کو لے کر منچ کا کہنا ہے کہ قاعدے کے مطابق کسی ہندوستانی کمپنی میں حصہ داری اس کمپنی کے شیئروں میں 50 فیصد سے کم ہے تو وہ بھارتیہ کمپنی نہیں ہے اس لئے ہم نے لوگوں کو پے ٹی ایم کو نہ استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ سودیشی جاگرن منچ کے نائب کنوینر اشونی مہاجن نے بتایا کہ ہم نے پے ٹی ایم میں چینی کمپنی ’علی بابا‘ کی حصہ داری کی کئی رپورٹ پڑھی ہیں۔ ہم’ کیش لیس‘ نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں تو ایسے میں ہمیں یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ کوئی بھی بھارتیہ کمپنی کسی غیر ملکی کمپنی کے ساتھ اپنا ڈاٹا شیئر نہ کرے۔ ہم پے ٹی ایم کا بائیکاٹ کریں گے۔ اب آتے ہیں پے ٹی ایم کی سکیورٹی کے مدعہ پر۔ پے ٹی ایم کا استعمال کرنے والے ہوشیار ہوجائیں۔ اس کا سسٹم فول پروف نہیں ہے۔ اس کے استعمال سے آپ اپنے اکاؤنٹ کا پورا پیسہ گنوا سکتے ہیں۔ اس کے بعد اگر کمپنی والوں سے رجوع کیا تو وہاں سے بھی نا امیدی ہاتھ لگے گی۔ پوربی دہلی کے شاہدرہ علاقہ میں ایک بیگ کی دوکان چلانے والے دوکاندارکا پے ٹی ایم سے ادائیگی کرنا مہنگا پڑ گیا۔ لوکیش جین نام کا یہ دوکاندار پے ٹی ایم کے ذریعے اپنے بجلی کا بل آن لائن جمع کرا رہاتھا۔پیمنٹ کے دوران ون ٹائم پاسورڈ (او ٹی پی) مانگا گیا ، پاسورڈ دیتے ہی ان کے کھاتے میں جمع 17580 روپئے کی رقم اڑ گئی۔ انہوں نے فوراً اس کی شکایت پے ٹی ایم میں کی۔ وہاں سے ٹکا سا جواب دے دیا گیا کہ پہلے ای۔ میل کرو پھر دیکھتے ہیں۔متاثرہ دوکاندار نے پے ٹی ایم کمپنی کے آپریٹروں کے اس عمل سے دکھی ہوکر تھانے کی راہ پکڑ لی ہے۔متاثر دوکاندار کی شکایت پر شاہدرہ تھانہ پولیس معاملے کی جانچ کررہی ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ پے ٹی ایم کمپنی کو بھی چونا لگانے کے معاملے سامنے آرہے ہیں۔
ڈیجیٹل کمپنی پے ٹی ایم کو 6.15 لاکھ روپئے کا چونا لگانے والے 15 گراہکوں کے خلاف سی بی آئی نے کیس درج کیا ہے۔ ڈیجیٹل لین دین کی سہولت دینے والی والٹ کمپنی پے ٹی ایم نے سی بی آئی سے شکایت کی ہے کہ 48 گراہوں نے اس کے ساتھ 6.15 لاکھ روپئے کی دھوکہ دھڑی کی ہے۔ ملزم گراہک آرڈر کے پروڈکٹ وصول کر لیتے تھے لیکن اپنے پیکٹ میں دوسری چیزیں ڈال کر ریٹرن کی رکویسٹ کرتے تھے۔ پیکٹ چونکہ بند ہوتا تھا اس لئے واپس چلا جاتا تھا اور پیسے واپس مل جاتے تھے۔ اس طرح وہ پروڈکٹ بھی لیتے تھے اور ریفنڈ بھی ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تک بھارت میں ڈیجیٹل لین دین کا سسٹم فول پروف نہیں ہے جوکھم بھرا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!