کالے دھن پر سیاسی پارٹیوں کو کھلی چھوٹ

پانچ ریاستوں میں اسمبلی چناؤ سے ٹھیک پہلے مودی سرکار نے نوٹ بندی کے معاملے میں سیاسی پارٹیوں کو بڑی راحت دینے کا اعلان کیا ہے۔ ریونیو سیکریٹری ہنس مکھاڑھیا نے بتایا کہ 500 اور 1000 کے پرانے نوٹ اپنے کھاتے میں جمع کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو انکم ٹیکس میں پہلے سے مل رہی چھوٹ جاری رہے گی لیکن نقد شکل میں یہ رقم 20 ہزار سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ ساتھ ہی چندہ دینے والے کی رسید اور اس کی صحیح پہچان بھی ضروری ہوگی۔ موجودہ قانون کے تحت کسی بھی سیاسی پارٹی کو ایک شخص سے ملنے والی رقم 20 ہزار سے زیادہ ہونے پر چیک یا ڈرافٹ سے ہی قبول کیا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر اس رقم پر بھی انکم ٹیکس دینا ہوگا۔ دراصل سیاسی پارٹیوں کے بینک کھاتے میں جمع رقم کو پہلے سے ٹیکس سے چھوٹ حاصل ہے۔ بھارت میں لگ بھگ 1886 رجسٹرڈ پارٹیاں ہیں۔ سرکار نے بھرشٹاچار اور کالے دھن کا ایک سب سے بڑے ذریعے کو کالا دھن سفید کرنے کی چھوٹ دے دی ہے۔ آپ کسی بھی پارٹی کو لے لیجئے اس کے لئے چندے کے طور پر 20 ہزاررسیدیں 20 ہزار روپے کی کٹوانا مشکل نہیں ہے۔ اس طرح ایک جھٹکے میں 4 کروڑ روپیہ آجاتا ہے۔ اسے واپس دینے کے لئے ( کچھ فیصد چندہ کاٹ کرکے) چندہ دینے والے کو کسی ریلی کا انتظام کرنے کو کہا جاتا ہے اور اسے ریلی کے لئے کروڑوں کا چیک (خرچ کی مد میں) دے دیا جاتا ہے۔ ہو گیا نہ اس شخص کا کالا دھن سفید۔اگلے کچھ ماہ میں ملک کی کچھ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ چناؤ کے لئے سبھی سیاسی دل کمر کس چکے ہیں اور انہوں نے اپنی ریلیاں اور پرچار مہم بھی شروع کردی ہے۔ دہلی میں بھی نگر نگم چناؤ ہونے ہیں آنے والے چناؤ میں کالے دھن کا استعمال بھی اس بار جم کر ہوگا۔ نوٹ بدلنے کی اس مہم سے آنے والے چناؤ میں کالے دھن کے استعمال پر قطعی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سبھی سیاسی پارٹیاں پہلے سے ہی بے نامی کھاتے کھلوا کر اس میں اس قسم کا پیسہ جمع کر کے سونا ،ہیرا اور منقولہ جائیداد میں بدل چکے ہیں۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم (اے ڈی آر)کے اترپردیش کے پرمکھ سنیوجک ڈاکٹر لینن نے کہا ’’سیاسی دل اپنی رقم کا استعمال ورکروں کو 10-10 ،20-20 ہزار یا ان کی مالی حیثیت کے حساب سے بانٹنے کی کوشش کریں گے۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہوا ہے کہ سیاسی پارٹیاں چناؤ سے پہلے اپنے کارکنوں کو پیسہ بٹواتی ہیں لیکن لینن نے اے ڈی آر تنظیم کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ اترپردیش کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں سماج وادی اور بہوجن سماج پارٹی کے پاس پیسے کے بڑی تعداد میں نامعلوم ذرائع ہیں۔ بسپا کی کل آمدنی 585 کروڑ روپے ہے۔ جس میں سے 307 کروڑ روپے اسے رضاکار طور پر چندہ سے ملتے ہیں جو 20 ہزار روپے سے کم دیتے ہیں ۔ پارٹی کو20 ہزار روپے سے کم کی رقم دان کرنے والے کا نام بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اے ڈی آر کی ہی ایک دیگر رپورٹ کے مطابق یوپی میں اس بار کے اسمبلی انتخابات میں 84 فیصد امیدوار ٹھیکیدار، بلڈر، کان مافیہ، ایجوکیشن مافیہ اور چٹ فنڈ کمپنی چلانے والے لوگ ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ بھارت کی سیاسی پارٹیوں کو کالے دھن کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ٹکٹوں کی بولی سے لیکر پارٹی کو چندہ تک چاہئے ہوتا ہے۔ دیش میں بدعنوانی کا ایک طرح سے سب سے بڑا ذریعہ پولٹیکل فنڈنگ ہوتی ہے اور کالے دھن کے معاملے میں ساری پارٹیاں ایک جیسی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سرکار نے نوٹ بندی سے بچانے کے لئے سیاسی پارٹیوں کو باہر نکلنے کا راستہ تھما دیاہے۔ کچھ معنی میں تو نوٹ بندی کے اہم مقصد کو ہی ملیا میٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں میں کالے دھن پر روک کی کوشش کے تحت حکومت ہند کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ قانونوں میں ترمیم کرکے جس سے کہ ٹیکس میں چھوٹ انہی پارٹیوں کو ملے جو سیٹیں جیتیں 2000 روپئے اور اس کے اوپردئے جانے والے پوشیدہ چندے کی تفصیل بتائی جائے۔اگر سیاسی جماعتیں اس تجویزکو مان لیتی ہیں تو ممکن ہے بدعنوانی پر نکیل لگ سکے ورنہ نہ تو بدعنوانی بند ہوگی نہ ہی کالا دھن۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!