موجودہ ٹکراؤ میں جی ایس ٹی کا کیاہوگا
مرکزی سرکار کو گڈس اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کو 16 ستمبر 2017ء تک نافذ کرناہوگا۔ پارلیمنٹ میں جو جی ایس ٹی بل پاس ہوا تھا اس کا آئینی جواز کی میعاد 16 ستمبر2017 ء کو ختم ہوجائے گی۔ اگر وقت یوں ہی گزرتا رہا تو سرکار کے سامنے بڑی مشکل کھڑی ہوسکتی ہے۔ مودی سرکار اب اگلے سال سے اس جی ایس ٹی کو نافذ کرانے کے لئے اپوزیشن پارٹی کو لبھانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ حال ہی میں ہوئی جی ایس ٹی کونسل کی میٹنگ تو بغیر نتیجہ ختم ہوگئی تھی سرکار جی ایس ٹی بل پر سبھی ریاستوں سے رضامندی ملنے کے بعد دو دنوں کا اسپیشل سیشن بلا کر بل کو پاس کرانے کی پہل کرسکتی ہے۔ ابھی تک تو تمام ریاستوں میں جی ایس ٹی کو لیکر اتفاق رائے نہیں ہو پایا۔ 11 اور 12 دسمبر کو جی ایس ٹی کونسل کی میٹنگ میں سرکار کورضامندی کا بھروسہ تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ 16 دسمبر کو ختم ہورہے سرمائی اجلاس میں اس کے پاس ہونے کا امکان ختم ہوگیا ہے۔ نوٹ بندی کے بعد پارلیمنٹ میں حکمراں اور اپوزیشن کے درمیان ٹکراؤ کے حالات بنے ہوئے ہیں۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وقت رہتے جی ایس ٹی کو نافذ نہیں کیا گیا تو سرکار ان ڈائریکٹ ٹیکس نہیں وصول پائے گی کیونکہ جب تک موجودہ ٹیکس ختم ہوچکے ہوں گے اور نیا ٹیکس نافذ نہیں ہوگا۔ جی ایس ٹی جلد لاگو کیا جانا ضروری ہے کیونکہ ستمبر کے وسط کے بعد قانونی سپورٹ کے بغیر ٹیکس نہیں وصولا جا سکتا۔ امرواقع یہ ہے کہ ٹیکس دہندہ یونٹوں پر کس طرح مرکز و ریاستیں دونوں میں کنٹرول ہو یا کسی ایک ہی کا کنٹرول ہو اس پر کوئی راستہ نہیں نکلتا دکھائی پڑ رہا ہے۔
حال ہی میں اختتام پذیر میٹنگ میں تو اس پر بحث تک نہیں ہوپائی۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ 22-23 دسمبر کی اگلی جی ایس ٹی کونسل میٹنگ میں کیا ہوتا ہے؟ لیکن اس وقت تو اس کے اعلان کردہ اپریل 2017ء سے لاگوہونے کا امکان ایک طرح سے مدھم ہی پڑ رہا ہے۔ حالانکہ مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کہا کہ مجوزہ بل میں تقریباً 195 دفعات ہیں جن میں سے 99 دفعات پر غور و خوض کیا گیا تھا۔ جیٹلی نے اپریل2017ء سے نافذ ہونے پر صرف اتنا کہا کہ مرکزی سرکار اس پر قائم ہے اور قائم رہنے اور نافذ ہونے میں فرق ہے۔ وجہ یہ کہ یہ اکیلے مرکز کا قانون نہیں ہے جسے آپ نے پاس کر نافذ کردیا۔ اس کے لئے کونسل کی رضامندی ہونی چاہئے ساتھ ہی پارلیمنٹ میں پھر سے پاس ہونا ضروری ہے۔ کئی ریاستوں اور مرکز کے درمیان کچھ نکات کو لیکر اختلافات صاف ہیں اس معنی میں اگلی کونسل کی میٹنگ کافی اہم ہوگئی ہے۔ مرکز کی پوری کوشش ہوگی کہ کسی طرح سے اتفاق رائے بن جائے لیکن نوٹ بندی کے اشو نے جی ایس ٹی کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اس وقت تو تمام اپوزیشن مودی سرکار کے خلاف متحد نظر آرہی ہے ایسے میں جی ایس ٹی کا کیا ہوگا؟
حال ہی میں اختتام پذیر میٹنگ میں تو اس پر بحث تک نہیں ہوپائی۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ 22-23 دسمبر کی اگلی جی ایس ٹی کونسل میٹنگ میں کیا ہوتا ہے؟ لیکن اس وقت تو اس کے اعلان کردہ اپریل 2017ء سے لاگوہونے کا امکان ایک طرح سے مدھم ہی پڑ رہا ہے۔ حالانکہ مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کہا کہ مجوزہ بل میں تقریباً 195 دفعات ہیں جن میں سے 99 دفعات پر غور و خوض کیا گیا تھا۔ جیٹلی نے اپریل2017ء سے نافذ ہونے پر صرف اتنا کہا کہ مرکزی سرکار اس پر قائم ہے اور قائم رہنے اور نافذ ہونے میں فرق ہے۔ وجہ یہ کہ یہ اکیلے مرکز کا قانون نہیں ہے جسے آپ نے پاس کر نافذ کردیا۔ اس کے لئے کونسل کی رضامندی ہونی چاہئے ساتھ ہی پارلیمنٹ میں پھر سے پاس ہونا ضروری ہے۔ کئی ریاستوں اور مرکز کے درمیان کچھ نکات کو لیکر اختلافات صاف ہیں اس معنی میں اگلی کونسل کی میٹنگ کافی اہم ہوگئی ہے۔ مرکز کی پوری کوشش ہوگی کہ کسی طرح سے اتفاق رائے بن جائے لیکن نوٹ بندی کے اشو نے جی ایس ٹی کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اس وقت تو تمام اپوزیشن مودی سرکار کے خلاف متحد نظر آرہی ہے ایسے میں جی ایس ٹی کا کیا ہوگا؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں