سینا چیف کے بعد اب پاک آئی ایس آئی چیف
پاکستان میں کئی اہم تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ پہلے فوج کے چیف کو بدلا گیااب آئی ایس آئی چیف بدل گیا ہے۔ خفیہ معاملوں کے تجربہ کار لیفٹیننٹ جنرل مختار کو پاکستان کی طاقتور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا نیا چیف مقرر کیا گیا ہے۔ یہ قواعد نئے فوجی چیف قمر جاوید باجوا کی دیش کے معاملوں میں اہم رول نبھانے والی فوج پر پکڑ مضبوط کرنے کے لئے کی گئی ہیں۔ یہ پہلی بڑی ردو بدل کا حصہ ہے۔ نئے آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار بھارت کے خلاف جارحانہ رخ اپنانے کے حق میں رہے ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں بھارت کے رول کو محدود کرنے کے سخت قدم اٹھانے کی وکالت کی۔ نوید مختار کا خیال ہے کہ افغانستان کو بھارت کا مہرہ بننے سے روکنے کے لئے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ مختار کو بھی جنرل باجوا کی طرح وزیر اعظم نواز شریف کا آشیرواد حاصل ہے اور دونوں ہی نواز کے چہیتے مانے جاتے ہیں۔ اس طرح دونوں کی تقرری سے لگتا ہے کہ نواز شریف فوج اور آئی ایس آئی پر اپنی پکڑ زیادہ مضبوط کرناچاہتے ہیں۔ جنرل مختار آئی ایس آئی کی انسداد دہشت گردی برانچ کے پہلے چیف بھی رہ چکے ہیں۔ مختار نے پانچ سال پہلے ایک پیپر میں لکھا تھا کہ امریکی فوج کے کابل چھوڑنے سے پہلے افغانستان سرکار میں اصلاح پسند طالبان کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔ امریکی آرمی وار کالج میں اپنے مقالے کے دوران انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ افغانستان میں بھارت کا رول محدود ہونا چاہئے۔ بتا دیں موجودہ آئی ایس آئی چیف رضوان اختر کے پی ایم نواز شریف کی سرکار سے کچھ رشتے ٹھیک نہیں تھے۔ اخبار ڈان کے مطابق اڑی حملے کے بعد بڑے فوجی حکام اور سرکار کے درمیان ملاقات میں رضوان اور پنجاب سرکار کے وزیراعلی اور نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف میں تلخ بحث ہوئی تھی۔ نوید مختار کو سرکار اور فوجی لیڈر شپ دونوں کا بھروسہ مند بتایا جارہا ہے۔ وہ دونوں کے درمیان اختلافات دور کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ مختار کو آئی ایس آئی چیف پہلے ہی بنا دیتے لیکن اس وقت کے فوج کے چیف جنرل راحیل شریف نے اسکی مخالفت کی تھی۔ ان کے ہٹتے ہی نواز نے آئی ایس آئی چیف بدل ڈالا۔ پاکستان میں ہر فوج کے چیف کی طرح جنرل باجوہ نے بھی نئی ٹیم بنائی ہے اور فوج کے انتظامیہ میں کئی اہم تبدیلیاں کی ہیں اور اسی سلسلے میں جنرل مختار کی تقرری کو بھی دیکھا جانا چاہئے۔بھارت کے لئے جنرل مختار سے کسی دوستانہ حکمت عملی کی امید بیکار ہے، لیکن اگر وہ اپنے شہری ایڈمنسٹریٹر کا احترام کرتے ہوئے دیش کی دہشت گردانہ سرگرمیوں پر لگام لگائیں اور دونوں ملکوں کے رشتو ں میں دہشت گردی کو نہ آنے دیں تو یہ اس برصغیر کے لئے بہتر ہوگا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں