مسلم پرسنل لاء بورڈ کو عدالت نے دکھایا آئینہ

پچھلے طویل عرصے سے اخباروں سرخیوں بنا تین طلاق کا مسئلہ ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا ہے۔ دو مسلم خواتین کی طرف سے داخل عرضی پر سماعت کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے تین طلاق کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان عورتوں کے حق کی بات کہی ہے جو اس کا خمیازہ بھگتی ہیں۔ ان لوگوں اور گروپوں کو بھی تقویت دی ہے جو طلاق کے ثلاثہ کی کافی عرصے سے مخالفت کرتے آرہے ہیں۔ پہلی بیوی کو طلاق دے کر دوسری شادی کرنے والے ایک مسلم شخص اور اس کی دوسری بیوی کے پولیس ٹارچر سے سکیورٹی دلانے سے متعلق عرضی پر سماعت کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے مسلم خواتین کے آئینی حقوق اور مختلف فرقوں کے پرسنل لاء کے بارے میں جو کچھ کہا اس پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عدالت ہذا نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اس سے مسلم خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ جس طرح کی مانگ اٹھ رہی تھی ٹھیک اسی کے مطابق کورٹ نے بھی کہا کہ کوئی بھی پرسنل لاء بورڈ آئین سے بالاتر نہیں ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ نہ صرف مسلم خواتین کو طاقت دیتا ہے بلکہ آئین کو بالاتر ماننے والے لوگوں کو بھی تقویت دیتا ہے کیونکہ کسی بھی دیش میں آئین ہی بالاتر ہوتا ہے اور اسی کے مطابق سسٹم چلتا ہے۔ مختلف فرقوں میں رائج پرسنل لا بورڈ کا کوئی بھی شق ہندوستانی آئین کے ذریعے شہریوں کو دئے گئے حقوق کا قبضہ نہیں کرسکتی۔ صاف ہے کہ ہائی کورٹ نے مسئلے کی حساسیت اور سپریم کورٹ کے وقار دونوں کا خیال رکھتے ہوئے متبادل اور مثبت رخ اپنایا ہے۔ اس نے فیصلہ عرضی پر دیا ہے ،تین طلاق کے جواز پر نہیں۔ اگر تین طلاق پر بات ہوتی تو کورٹ اس فرق کی ضرور تشریح کرتا جو فٹا فٹ تین طلاق کہہ کر، یا فون، اسکائپ، فیس بک وغیرہ کے ذریعے تین بار طلاق لفظ بول کر رشتہ توڑ لینے اور طے عمل کے مطابق90 دن کے فرق میں سماج میں شامل کرتے ہوئے طلاق دینے میں ہے۔ اس معاملے میں اسلام سے جوڑنے پر آمادہ پرسنل لاء بورڈ کے لوگوں اور مسلم سماج کے کٹر پسند عناصر کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ وہ مذہب کے نام پر کسی زیادتی کی اجازت تو نہیں دے رہے ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس بنیاد پر تین طلاق کی حمایت کررہا ہے کہ یہ مسلم پرسنل لاء سے جڑا ہے اور دیش کو دوسرے مذاہب کی رسم و رواج کا احترام ضرورکرنا چاہئے لیکن اس کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایسا کوئی بھی قانون، روایت آئین سے نہ ٹکرائے ،کیونکہ کوئی بھی مذہب آئین سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے صاف بھی کیا ہے کہ اسلام میں طلاق کے معاملے میں ویسا رخ نہیں ہے جیسا مسلم پرسنل لاء بورڈ یا تین طلاق کے حمایتی بتا رہے ہیں۔ اب سب کی نگاہیں سپریم کورٹ کی طرف ہیں جہاں امید کی جاتی ہے مسلم خواتین سے انصاف ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!