آسان نہیں ہوگی ڈونلڈ ٹرمپ کی پریسیڈینسی
امریکی صدر عہدے کے چناؤمیں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے تہلکہ مچادیا ہے۔ کسی کو بھی ایسی جیت کی امید نہیں تھی۔ ان کی کامیابی اس لئے بھی زیادہ غیر متوقعہ ہے کیونکہ ایک تو وہ سیاستداں کی روایتی تشریح میں پورے نہیں اترتے اور دوسرے یہ کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ ساتھ امریکی میڈیا تمام تھنک ٹینک، دانشور و چناوی پنڈت یہ پیشگوئی کررہے تھے کہ امریکی عوام ایسے بڑبولے و نا تجربہ کار ٹرمپ کو صدر بنانے کی غلط نہیں کرے گا۔ ابھی دو مہینے پہلے تک یہ مانا جارہا تھا کہ اس مرتبہ بھی امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کیلئے امیدتھی کہ وہ اس کا ہی صدر بنے گا ۔ پھر ابھی ایک ہفتے تک یہ لگ رہا تھا کہ ڈیموکریٹک امیدوار ہلیری کلنٹن کو ٹرمپ سخت ٹکڑ دے رہے ہیں۔ پھر بھی نیویارک ٹائمس جیسے نامور روزنامہ اور سروے یہ دعوی کررہے تھے کہ ہلیری کی معمولی سی برتری ہے اور وہ ہی کامیاب ہوں گی لیکن جب نتیجے آئے تو نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے بلکہ انہوں نے سب کا اندازہ غلط کر ڈالا۔ پہلی بار امریکہ کے بڑے میڈیا نے چناؤ میں کسی ایک امیدوار کو نہ صرف حمایت دی بلکہ اس کے حق میں ووٹ تک کرنے کی اپیل کردی۔ کبھی کھل کر امریکی میڈیا نے کسی امیدوار کے حق میں ایسی اپیل نہیں جاری کی تھی۔ سی این این نیویارک ٹائمس ، واشنگٹن پوسٹ سمیت 55 میڈیا گھرانوں نے سیدھے طور پر ہلیری کا ساتھ دیا لیکن ٹرمپ نے سبھی کو چاروں خانے چت کردیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے سب سے زیادہ عمر والے صدربنے ہیں، وہ70 سال کے ہیں۔ ان سے پہلے رونالڈ ریگل 69 سال کی عمر میں امریکہ کے سب سے بزرگ صدر بنے تھے۔ حالانکہ ہلیری کلنٹن کی عمر بھی 69 سال ہے۔ جس فرق سے جیتے وہ بتاتا ہے کہ چناوی سروے اور اندازے اکثریت بھارت میں ہی نہیں امریکہ میں بھی غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔ یہ فرق بتاتا ہے کہ وہاں ٹرمپ کی حمایت میں ہوا چل رہی تھی جسے تمام طرح کے ماہرین سمجھنے میں ناکام رہے۔ جہاں تک ٹرمپ کی جیت اور بھارت کا سوال ہے دیکھنا یہ ہوگا کہ جہاں اوبامہ نے اپنی میعاد کے خاتمے تک نریندر مودی جیسے وزیر اعظم سے بہترین رشتے قائم رکھیں وہاں سے ٹرمپ انہیں آگے بڑھاتے ہیں یا نہیں؟ ان کے بھارت کے ساتھ رشتے کیسے ہوں گے؟ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد جہاں امید کی جارہی ہے کہ پوری دنیا میں ایک نیا محاذ بنے گا روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کھل کر ٹرمپ کی حمایت کی ہے۔ امریکہ، روس، اسرائیل اور بھارت یہ دنیا کا نیا محاذ بن سکتا ہے۔ یہ محاذ اسلامی کٹرواد کے سخت خلاف ہے اور امید ہے کہ اسلامی کٹر پسندی پر اب کھل کر لگام لگے گی۔ براک اوبامہ ڈبل گیم کھیلتے رہے ہیں آج عالمی آتنک واد کی ایک بڑی وجہ ہے امریکہ کا دوغلہ پن۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک پختہ عزم کے آدمی لگتے ہیں اور ان کی ترجیحات بھی صاف ہے لیکن جہاں ٹرمپ سے بہت سی امیدیں ہیں وہیں چناؤ کمپین کے دوران ان کے نظریات سے امریکی بھی خوفزدہ ہیں اور ڈرے ہوئے بھی ہیں۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ عورتوں کے بارے میں ان کے نظریات کیا ہیں؟ سب کو پتہ ہے کہ اقلیتوں کے بارے میں اکثر ان کے منہ سے جس طرح کے پھول جھڑتے ہیں؟ ان کے چال اور کردار اور چہرے کے تمام ہاؤ بھاؤ پچھلے کچھ وقت سے پوری دنیا دیکھ رہی ہے ۔ بتایا جاتا ہے اقتصادی پالیسیاں ،غیر ملکی رشتوں پر ہم نے ان کے مشتعل تیور اور جارحانہ الفاظ والی تقریریں بھی سنی ہیں لیکن ہم نہیں جانتے کہ وہ ان پالیسیوں کو کونسی شکل دینے جا رہے ہیں۔ امریکی عوام کو تاریخ بنانے کا ایک موقعہ ملا تھا وہ ہلیری کو چنتے تو اس دیش کی پہلی خاتون صدر ہوتیں لیکن انہوں نے ٹرمپ کا ساتھ دے کر غیر سیاسی شخصیت کو صدر کی کرسی پر بٹھانے کی تاریخ بنا دی۔ یہ صاف ہے کہ امریکی عوام نے جہاں ٹرمپ کا تجزیہ ان کی نجی زندگی سے وابستہ تنازعوں کی بنیاد پر نہیں کیا ہے وہیں ہلیری کے معاملے میں وزیر خارجہ کے طور پر ان کا کردار پر خاص طور پر غور کیا گیا۔ لگتا ہے کلنٹن فاؤنڈیشن اور ای میل سرور سے وابستہ تنازعہ اور ان کی صحت کی وجہ سے ہلیری ہار گئیں۔ ان کو زیادہ ہی غرور تھا۔ اپنی چناؤ مہم کے دوران ٹرمپ نے جو کچھ بولا اس سے یہ سوال چاروں طرف پیدا ہورہا ہے کہ آخر اب وہ کیا کریں گے؟ لیکن جیتنے کے بعد محض خواب اور اسے پورا کرنے کے لئے جذبے کی بات اب کر رہے ہیں۔ امریکہ کے چاؤ کو لیکر خوفزدہ اور منقسم رہے ہیں وہ کہہ تو یہی رہے ہیں کہ وہ اب سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ اس سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ نے کچھ باتیں تو چناؤ جیتنے کے لئے کہیں اور کچھ واقعی کرنے کے لئے۔ ان کی فی الحال پوری توجہ امریکہ پر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس پورا روڈ میپ ہے لیکن اس کو انہوں نے پیش نہیں کیا۔ تو اب دیکھنا ہوگا ان کی صدارت کے شروعاتی دنوں میں کیا حالات رہتے ہیں۔ جہاں تک بھارت کا سوال ہے تو ٹرمپ نے دیش اور اس کی لیڈر شپ کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ ہر سطح پر بہتر بنانے کی بات کہی ہے اس لئے ہمیں ان پر کسی طرح کا شبہ نہیں کرنا چاہئے۔ بلا شبہ ڈونلڈ ٹرمپ سب سے طاقتور سربراہ مملکت ہوں گے لیکن ان کی راہ آسان تب ہوگی جب وہ اپنی ساکھ کے ساتھ ساتھ اپنی پالیسیوں کو لیکر بھی سنجیدہ ہوں گے۔ ان کا سب سے پہلا کام ہوگا امریکیوں کو متحد کرنا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں