اب 130 سال پرانی کانگریس میں راہل یگ کا عروج

کانگریس پارٹی کے 130 سال کی تاریخ میں پہلی بار ورکنگ کمیٹی میں صدر کے لئے کسی نام کی سفارش کی ہے اور سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ یہ نام کس کا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ ہم یووراج راہل گاندھی کی بات کررہے ہیں۔ ان کو کانگریس صدر کی کمان سونپنے پر لمبے عرصے سے قائم سسپنس اب ختم ہورہا ہے۔ 130 سال پرانی کانگریس میں پہلی بار ورکنگ کمیٹی نے ایک آواز میں کسی لیڈر کے نام کی سفارش کی ہے۔ ریزولوشن پیش کرنے والے سابق وزیر دفاع اے۔ کے۔ انٹونی نے کہاکہ ایسا پہلی بار ہورہا ہے اس لئے امید ہے کہ کانگریس صدر سونیا گاندھی مناسب توجہ دیں گی۔ ورکنگ کمیٹی نے راہل کو کانگریس صدر بنانے کی تجویز پارٹی صدر کو بھیج دی ہے۔ راہل گاندھی کو کانگریس صدر کی ذمہ داری سونپے جانے کی مانگ نئی نہیں ہے۔ ورکنگ کمیٹی میٹنگ میں اے کے انٹونی کی تجویز اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی توثیق پر اتفاق رائے بن بھی گیا لیکن پرستاؤ کم لاگو ہوگا اور راہل کمان کب سنبھالیں گے اس پر پارٹی کا سرکاری بیان ہے کہ اگلی ورکنگ کمیٹی تک انتظار کریں۔ دراصل راہل مخالف خیمہ لگاتار سرگرم ہورہا ہے اور پارٹی صدر بنانے کی مانگ پر اتفاق رائے تو ہوگیا لیکن کوئی وقت طے نہیں ہوپانے کی اپنی حکمت عملی میں کامیاب رہا۔ کچھ مہینے بعد یوپی اور پنجاب کے چناؤ ہیں۔ نتیجہ مناسب نہ ہونے پر راہل کی قابلیت پر سوال اٹھا کر اسے پھر سے ٹال دیا جائے گا۔ ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ ڈھائی سال بعد ہوئی اور سونیا گاندھی کو ایک سال اور مل گیا۔ پارٹی کے سینئر لیڈروں کی ایک لابی سونیا گاندھی کے قریب رہی ہے۔ وہ ہمیشہ سے چاہتی ہے کہ پارٹی کا اسٹئرنگ انہی کے ہاتھ میں رہے۔ کبھی پارٹی ٹوٹنے کا ڈر اور پرینکا واڈرا کو راہل کے یکساں بتا کر پارٹی میں ان کی اینٹری کی خبر پھیلا کر انہیں پریشانی میں ڈالا۔ سونیا گاندھی کافی دنوں سے بیمار چل رہی ہیں ۔ وہیں اگلے سال اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں چناؤ میں ڈسپلن کا مظاہرہ کرنے کا بھی پارٹی پر دباؤ بھی پارٹی ہائی کمان کو ہلکا کئے ہوئے ہے۔پارٹی کے پالیسی سازوں کو یہ بخوبی احساس ہے کہ سونیا کی غیر موجودگی میں راہل ہی فطری طور پر اس عہدے کے دعویدار ہیں اور یہ فیصلہ لینے میں زیادہ وقت گنوانا پارٹی کی صحت کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ ویسے 2013ء میں پارٹی کے نائب صدر بننے کے بعد راہل کی اننگ کافی دھیمی رہی ہے۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے یہ ٹھیک نہیں کہ جب بھاجپا نئے علاقوں میں پھیلتی جارہی ہے تب کانگریس سمٹتی دکھائی دے رہی ہے۔ آج کے دن کانگریس قومی سطح پر بھاجپا کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہ جمہوریت کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ دیش میں حکمراں طبقے کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط اپوزیشن بھی اتنی ہی ضروری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ راہل گاندھی کی لیڈر شپ میں کانگریس یہ رول نبھا پائے گی؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!