عام آدمی پارٹی میں عدم رواداری کا سوال

سوراج اور لوکپال جیسے اشو پر عام آدمی پارٹی عوام کے بیچ میں متبادل سیاست کے دعوے کے ساتھ آئی تھی۔ دکھ کی بات ہے کہ الگ ساکھ بنانے والی پارٹی اپنے اندر ہی جمہوریت کا قتل کررہی ہے۔ ہر بات پر جنتا سے رائے شماری کروانے والی اور محلہ سبھا کی بات کرنے والی پارٹی نہیں چاہتی کہ اس کے نیتا جنتا کے بیچ میں وہ رائے رکھیں جسے وہ صحیح نہیں مانتے۔ گوپال رائے کے ٹرانسپورٹ وزارت چھوڑنے پر عام آدمی پارٹی کی تیز طرار لیڈر الکا لانبہ کو پارٹی کے ترجمان کے عہدے سے ہٹا دئے جانے پر سوال اٹھنے فطری ہی ہیں۔ غور طلب ہے کہ ایب پر مبنی بس سیوا اسکیم میں عاپ کے نیتا اور وزیر گوپال رائے پر ایک پرائیویٹ کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے الزام لگے تھے۔ تنازعے میں آنے کے بعد اس معاملے کی جانچ چل رہی ہے۔ اس درمیان کام کا بوجھ زیادہ ہونے اور صحت ٹھیک نہ ہونے کا سبب بتا کر گوپال رائے سے ان کے عہدے سے استعفیٰ دلوایا گیا۔ اس سلسلے میں الکا لانبہ نے کہہ دیا کہ پریمیم بس گھوٹالے میں الزام لگنے پر گوپال رائے نے استعفیٰ دیا ہے تاکہ جانچ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اعلانیہ طور پر یہ عام آدمی پارٹی کی لائن نہیں تھی۔ اس مسئلے پر وزیر اعلی اروند کیجریوال کا موقف تھا کہ گوپال رائے خراب صحت کے سبب ٹرانسپورٹ محکمہ چھوڑا ہے۔
ظاہر ہے الکا لانبہ کے بیان نے اپوزیشن کو یہ کہنے کا موقعہ دے دیا ہے کہ گھوٹالے کے الزام کے چلتے ہی گوپال رائے کو عہدہ چھوڑنا پڑا۔ کرپشن مخالف مہم کی پہچان والی پارٹی کے لئے یہ اس لئے بھی ایک پریشانی والی صورتحال ہے کہ فی الحال پارلیمانی سکریٹری بل کو صدر کے ذریعے لوٹا دینے کے بعد عام آدمی پارٹی کے21 ممبران اسمبلی پر تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ جس تیزی سے الکا لانبہ کو ترجمانی کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اس سے فطری طور پر یہ سوال اٹھے کہ کیا عاپ کے اندر عدم رواداری کی آواز اٹھانے کی جگہ نہیں بچی ہے۔ کیجریوال آئے دن نریندر مودی پر عدم رواداری کا الزام لگاتے ہوئے نہیں ٹھکتے ،ان کے گھر میں کیا ہورہا ہے اس پر وہ کوئی بات نہیں کرتے۔ الکا لانبہ کا کیس پہلا نہیں ہے اس سے پہلے بھی مخالفانہ آوازوں کو درکنار کردیا جاتا رہا ہے اور پھر پارٹی سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ یوگیندر یادو، پرشانت بھوشن معاملے میں پارٹی میں بڑا ٹکراؤ سامنے آیا تھا۔ الکا لانبہ چاندنی چوک جیسے اہم ترین حلقے کی عام آدمی پارٹی کی ممبر اسمبلی ہیں۔ کانگریس سے آئی الکا لانبہ تیز طرار ساکھ کی نیتا ہیں۔ وہ دہلی یونیورسٹی اسٹوڈینٹ یونین کی پریسیڈنٹ بھی رہ چکی ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا الکا لانبہ کو سچ بولنے کی سزا دی گئی ہے یا پھر وجہ کوئی اور ہی ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!