پنجاب کی حقیقت دکھاتی ’’اڑتا پنجاب‘‘

نشے کے مسئلے کو لیکر بنی فلم ’اڑتا پنجاب‘ جمعہ کے روز جب پنجاب و دیش کے مختلف حصوں میں سنیما گھروں میں ایک ساتھ ریلیز ہوئی تو اسے دیکھنے کیلئے لوگوں میں اتنا کریز تھا کہ امرتسر سے لیکر چنڈی گڑھ اور دہلی میں سارے سنیما گھر ہاؤس فل رہے۔ سبھی جگہ لڑکوں اور بڑے افراد کی کافی بھیڑ دکھائی دی۔ میں نے بھی اس کریزی فلم کو دیکھا۔ اس فلم میں کئی طرح کے تنازعے ہوئے اور ابھی بھی ہورہے ہیں۔ اس کا ریلیز ہونا بھی ایک بڑا واقعہ اور کامیابی دونوں ہیں۔بہرحال، اس کے باوجود یہ کہنا تو پڑے گا ہی کہ ہدایتکار ابھیشیک چوبے نے ایک ایسی فلم بنائی ہے جس کا تعلق ایک بہت بڑے سماجی مسئلے سے ہے یعنی نشہ (ڈرگس) کی لت اور اس کا کاروبار۔ یہ بھی سچ ہے کہ پنجاب میں نشے کی بڑھتی لت کو لیکر پچھلے کئی برسوں سے مسلسل خبریں آتی رہی ہیں۔ میں نے اسی کالم میں کئی بار پنجاب میں پھیلتے ڈرگس کے بارے میں لکھا ہے اور یہ وہاں کا سیاسی اشو بھی بنتا جارہا ہے۔ حال ہی میں پٹھانکوٹ ایئربیس حملہ کے پیچھے بھی ڈرگس ایک بڑی وجہ رہی ہے۔ فلم دیکھنے کے بعد اگر ہم سیاسی بحث کو چھوڑ بھی دیں تو بھی یہ ماننا پڑے گا کہ ہدایت کار نے یہ دکھانے میں کامیابی پائی ہے کہ کس طرح نشے کا پورا کاروبار سماج کو اس کے اداروں کو اور فن کو اور پنجاب کی نوجواں پیڑھی کو برباد کررہا ہے۔ ’اڑتا پنجاب‘ فلم ایک دو نہیں چار کرداروں کی کہانی ہے جو کسی بھی شہر میں مل سکتی ہے۔ ٹامی سنگھ عرف دنگ برو( شاہدکپور) ایک پاپ اسٹار ہے اور ایک زبردست نشیڑی بھی ہے اس کے ہزاروں لاکھوں فین ہیں جو اس کے گیتوں کو صرف اس لئے پسند کرتے ہیں کیونکہ ان گیتوں کے الفاظ میں کہیں نہ کہیں ڈرگس (نشے ) کا ذکر ہوتا ہے جو ٹامی جیسے لوگوں تک پہنچتی ہے۔انسپکٹر سرتاج (دلجیت ) و اس کے ساتھی پولیس ملازمین کی بدولت جو رشوت لیکر نشے کے کاروباریوں کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں بلا روک ٹوک آنے دیتا ہے لیکن ایک دن جب سرتاج کا اپنا چھوٹا بھائی بلی نشے کی لت کے سبب ہسپتال پہنچتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ لت کس طرح پنجاب کو تباہ کررہی ہے۔ بلّی کا علاج کررہی ڈاکٹرپریتی سہانی (کرینہ کپور) سرتاج کو بتاتی ہے کہ کس طرح سے پنجاب کے ہرنوجوان کی رگ رگ میں نشہ خون بن کر دوڑ رہا ہے۔ دونوں ڈرگس کے ریکٹ کا پردہ فاش کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ ادھر کہیں دور پنکی (عالیہ بھٹ) نامی لڑکی بہار سے ہاکی پلیئر بننے کے لالچ میں آکر نشے کے سوداگروں کے ہاتھ لگ جاتی ہے۔ دلچسپ اور رونگٹے کھڑے کردینے والے واقعات ان چاروں کردارو ں کو آس پاس میں ایک کڑی کی طرح جوڑ دیتے ہیں اور تب اجاگر ہوتی ہے نشے کے کاروبار کی حقیقت۔ فلم یہ بھی دکھاتی ہے کہ جب کسی علاقے میں کوئی اس طرح کا نا جائز کاروبار پھیلتا ہے تو اس کی زد میں صرف وہاں کے بنیادی باشندے ہی نہیں باہر سے آکر وہاں بسے لوگ بھی پھنس جاتے ہیں یعنی نشہ صرف پنجاب کو یا پنجابی نوجوانوں کو ہی برباد نہیں کررہا ہے بلکہ ایک قومی مسئلہ بن گیا ہے۔ فلم کی مخالفت کرنے والے یا اسے پنجاب مخالف بتانے والوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ہدایتکار نے پنجاب کی سماجی زندگی کے اس پہلوکو دکھایا ہے جس سے نمٹنا ریاست کی اور دیش کی بھی بنیادی ترجیح ہونی چاہئے۔ ان کو پنجاب کی ساکھ سے زیادہ پنجاب کے مستقبل پر فکر کرنی چاہئے۔ اڑتاپنجاب میں صرف نشے سے گرفت لوگ ہی نہیں بلکہ اس سے بچانے کی ترکیب میں لگے لوگ بھی ہیں جیسے سرتاج اور ڈاکٹر پریتی سہانی۔ فلم ’’شاندار‘‘ میں شاہد، عالیہ بھٹ کی جوڑی اتنی جاندار تھی اس سے کہیں زیادہ شاندار اس فلم میں جمی ہے۔ان کے درمیان لو اینگل نہیں ہے، لیکن جو بھی اینگل ہے وہ ہے بڑا پیارا۔’ہائی وے‘ اور’’ ٹو اسٹیٹ‘‘ کے بعد یہ عالیہ کی اب تک کی سب سے زیادہ اچھی پرفارمینس ہے۔ شاہد گلیمرس دکھائی دینے سے کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے ڈی گلیمرس دکھائی دینا ۔ فلم میں ان کا لک ایسا ہے جو کہ انسان آئینے میں خود کو دیکھ کر ڈر جائے۔ فلم میں دلجیت دوسانچ کا سرتاج والا انداز دیکھ کر پتہ لگتا ہے کہ یہ بندہ محض پانچ برسوں میں پنجابی فلموں کا سپر اسٹار کیسے بنا ہوگا۔ اس کے علاوہ کرینہ کپور کا کردار بھی اہم ہے۔اسے لکھا بھی اچھے ڈھنگ سے گیا ہے یہاں تعریف کرنی ہوگی ابھیشیک چوبے اور سجیت شرما کی جنہوں نے فلم کی دو خاتون کرداروں کو کافی مضبوطی دی ہے۔ فلم امت ترویدی کے میوزک اور لبھاونے گانوں کی وجہ سے بھی راغب کرتی ہے۔ باکس آفس کے نظریئے سے فلم ہٹ ہے اور تقریباً35 کروڑ روپے کے بجٹ میں اب تک پہلے دن11 کروڑ روپے اور سنیچر کو13 کروڑ کا بزنس کرلیا ہے ۔ آخر میں اگر آپ ’اڑتا پنجاب‘ کو صرف اس تنازعے کی وجہ سے دیکھنا چاہتے ہیں تو گھر بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ اس فلم کو دیکھنے کی اور بھی وجوہات ہیں تنازعہ تو ایک بہانہ ہے ۔ سچ یہ ہے کہ گالیوں اور سچے مکالموں سے بھری ’’اڑتا پنجاب‘‘ آپ کی تالیاں نہیں آپ کی توجہ مانگتی ہے وہ بھی دیش کے سامنے ایک انتہائی سنگین مسئلے پر بنی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!