جے این یو میں ملک دشمن نعروں کا ویڈیو صحیح پایا گیا
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایک پروگرام کے دوران9 فروری کو کچھ طلبا کے ذریعے ملک دشمن نعرے لگانے والے ملزمان پر شکنجہ اور کس سکتا ہے۔ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے ملزمان کے خلاف جانچ تیز کردی ہے۔ جمعرات کو بھی سیل کے 6 افسران نے جے این یو پہنچ کر ایڈمیشن بلاک میں ماسٹر مائنڈ عمر خالد اور انربان بھٹاچاریہ سمیت دو طلبا سے قریب 3 گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی۔ عمر بدھوار کو دہلی پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے اکھل بھارتیہ وددیارتھی پریشد (اے بی وی پی) نے مظاہرہ کر پولیس پر جے این یو کے 9 فروری کے معاملے میں خاموشی اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے سے پولیس بچ رہی ہے جبکہ اس متنازعہ پروگرام کا ویڈیو صحیح پایا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 9 فروری کے پروگرام کا ایک پرائیویٹ چینل کا ویڈیو جانچ میں صحیح پایا گیا ہے۔ ویڈیو میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ دیش کے خودساختہ سرکولر قوم پرستوں نے اس کی سچائی پر کئی سوال کھڑے کئے تھے۔ ویڈیو کو سی ایف ایس ایل بھیجا گیا۔ اس ویڈیو سے ہی جے این یو میں ملک دشمن نعرے لگانے والے ملزمان کے خلاف بغاوت کا معاملہ درج ہوا تھا۔پولیس کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ چینل کے ویڈیو کو لودھی کالونی میں واقع سی بی آئی کے سی ایف ایس ایل لیباریٹری میں بھیجا گیا تھا ۔ اس نے8 جون کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کو رپورٹ سونپ دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی ہے۔
پولیس نے جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے چیئرمین کنہیا، انربان بھٹاچاریہ اور عمر خالد کو گرفتار کیا تھا۔ سبھی اب ضمانت پرباہر ہیں۔اس سے پہلے دہلی پولیس نے اس متنازعہ پروگرام کے جو پانچ ویڈیو گجرات لیب بھیجے تھے وہ بھی صحیح پائے گئے۔ ان ویڈیو کے ساتھ بھی کوئی چھیڑ چھاڑ سامنے نہیں آئی۔ اسے اس وقت کے پروگرام کو دیکھ رہے لوگوں نے اپنے موبائل سے بنایا تھا۔اب اسپیشل سیل کو کنہیا کمار کی آواز کے نمونوں کی رپورٹ کا انتظار ہے۔ تب ان خودساختہ طاقتوں نے دلیل پیش کی تھی کہ ویڈیو فٹیج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور طالبعلم لیڈروں کو بلا وجہ پریشان کرنے کے مقصد سے پولیس نے یہ کیس درج کیا ہے۔ مرکزی سرکارپر بھی جے این یو کو بدنام کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔تب ان طلبا کی گرفتاری کو لیکر دیش بھر میں مخالفانہ آوازیں اٹھی تھیں۔ اب چونکہ ویڈیو کی سچائی پرسارے الزام ہٹ گئے ہیں اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا ہے امید کی جاتی ہے کہ دہلی پولیس اس معاملے میں باقی جانچ کو تیز کرے گی۔ بتادیں کنہیا نے تو ضمانت کے بعد بھی دیش دشمن تقریریں کی ہیں۔ دیکھیں عدالتیں اس کی مشروط ضمانت پر کیا کارروائی کرتی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ 9 فروری کے پروگرام کا ایک پرائیویٹ چینل کا ویڈیو جانچ میں صحیح پایا گیا ہے۔ ویڈیو میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ دیش کے خودساختہ سرکولر قوم پرستوں نے اس کی سچائی پر کئی سوال کھڑے کئے تھے۔ ویڈیو کو سی ایف ایس ایل بھیجا گیا۔ اس ویڈیو سے ہی جے این یو میں ملک دشمن نعرے لگانے والے ملزمان کے خلاف بغاوت کا معاملہ درج ہوا تھا۔پولیس کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ چینل کے ویڈیو کو لودھی کالونی میں واقع سی بی آئی کے سی ایف ایس ایل لیباریٹری میں بھیجا گیا تھا ۔ اس نے8 جون کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کو رپورٹ سونپ دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی ہے۔
پولیس نے جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے چیئرمین کنہیا، انربان بھٹاچاریہ اور عمر خالد کو گرفتار کیا تھا۔ سبھی اب ضمانت پرباہر ہیں۔اس سے پہلے دہلی پولیس نے اس متنازعہ پروگرام کے جو پانچ ویڈیو گجرات لیب بھیجے تھے وہ بھی صحیح پائے گئے۔ ان ویڈیو کے ساتھ بھی کوئی چھیڑ چھاڑ سامنے نہیں آئی۔ اسے اس وقت کے پروگرام کو دیکھ رہے لوگوں نے اپنے موبائل سے بنایا تھا۔اب اسپیشل سیل کو کنہیا کمار کی آواز کے نمونوں کی رپورٹ کا انتظار ہے۔ تب ان خودساختہ طاقتوں نے دلیل پیش کی تھی کہ ویڈیو فٹیج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور طالبعلم لیڈروں کو بلا وجہ پریشان کرنے کے مقصد سے پولیس نے یہ کیس درج کیا ہے۔ مرکزی سرکارپر بھی جے این یو کو بدنام کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔تب ان طلبا کی گرفتاری کو لیکر دیش بھر میں مخالفانہ آوازیں اٹھی تھیں۔ اب چونکہ ویڈیو کی سچائی پرسارے الزام ہٹ گئے ہیں اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا ہے امید کی جاتی ہے کہ دہلی پولیس اس معاملے میں باقی جانچ کو تیز کرے گی۔ بتادیں کنہیا نے تو ضمانت کے بعد بھی دیش دشمن تقریریں کی ہیں۔ دیکھیں عدالتیں اس کی مشروط ضمانت پر کیا کارروائی کرتی ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں