بھارت اب دنیا کی سب سے کھلی معیشت

ایسے وقت جب ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر رگھو رام راجن کی اچانک بدائی کے اعلان سے مالی بازاروں میں تشویش کا ماحول ہے، این ڈی اے سرکار نے اپنے عہد کے سب سے بڑے اور اہم اقتصادی اصلاحات کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی رہنمائی میں ہوئی اعلی سطحی میٹنگ میں سول ایوی ایشن ، ڈیفنس، سنگل برانڈ ریٹیل و براڈ کاسٹنگ سمیت 9 سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے قواعد کو آسان بنا دیا گیا ہے۔ ان اصلاحات کے ساتھ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارت اب دنیا کی سب سے کھلی معیشتوں میں سے ایک ہے۔اس قدم کا مقصد دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو ایک مثبت پیغام دینا ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد دنیا کی نظروں میں بھارت کی ساکھ بہتر ہوئی ہے اور پچھلے کچھ وقت سے بین الاقوامی تاجر اور معاشیات کے تجزیہ کار ہمیں بڑی امید کے ساتھ دیکھنے لگے ہیں۔ آج کئی ریٹنگ ایجنسیوں نے بھارت کو سرمایہ کاری کے لئے سب سے زیادہ موضوع جگہ مانا ہے۔ اس فیصلے کا پورا پورا فائدہ ملے اس کے لئے حکومت کو کئی محاذ پر ابھی بھی لڑنا ہوگا۔ سب سے پہلے سیاسی پوزیشن اس کی زور دار مخالفت کرے گی اور اس مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ دوسرا بڑا مورچہ بھارت کی ایڈمنسٹریٹو مشینری کا ہے۔ یعنی حکومت کو اپنی ہی مشینری کو اتنا چست اور شفاف بنانا ہوگا کہ وہ ایف بی آئی کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے۔ تیسرا مورچہ قومی اور بین الاقوامی معیشت کا ہے جہاں نئے سرمایہ کار اور صنعت کے لئے زیادہ جوش نہیں ہے۔ پھر رگھورام راجن کے عہدہ چھوڑنے سے دیش کی معیشت کے بارے میں جو شبہات پیدا ہوئے ہیں یا کئے جارہے ہیں اس سے بھی سرکار کو نمٹنا پڑے گا۔ یہاں بتانا ضروری ہے غیر ملکی سرمایہ کار راتوں رات تھیلیاں لیکر بھارت نہیں آنے والے ہیں جو بھی سرمایہ کار بھارت میں اپنا بڑا سرمایہ لگانا چاہے گا وہ سب سے پہلے یہ دیکھے گا کہ دیش میں اس فیصلے کے مطابق ماحول بن پایا ہے یا نہیں؟ افسروں کے کام کاج کا طریقہ بھی بدلنا ہوگا۔ غیر ملکی ملٹی نیشنل جیسے ایپل کمپنیوں کا دیش میں اپنے خود کے اسٹور کھولنے سے ہندوستانی کمپنیوں کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار اصلاحاتی قدموں کے ساتھ ڈھانچہ بند اصلاحات بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ کچھ پچھلی تکنیکی رکاوٹوں کو لیکر یہ یقینی کرنا چاہے گی کہ لیبر پالیسی بھی ایک بڑا تعطل ہے اور یہ سب اندیشات کو دور کرنا افسر شاہی کی ذمہ داری ہے۔ افسر شاہی کو ایسا ماحول تیار کرنا ہوگا جس سے سرمایہ کاروں میں اعتماد بڑھے۔ ڈیفنس سیکٹر میں دقت یہ ہے کہ کوئی بھی ترقی یافتہ ملک اپنی کمپنیوں کی جدید تکنیک کے ساتھ بھارت نہیں آنا چاہے گی۔ غیر ملکی کمپنیاں ہماری ضرورت سے زیادہ اپنی کاروباری ضرورتوں کے حساب سے پیداوار کرنا چاہیں گی۔ بتادیں کہ بھارت ہتھیاروں کا دنیا میں سب سے بڑا خریداروں میں سے ایک ملک ہے۔ 
پانچ سالوں میں ایک لاکھ کروڑ روپے سے بھی زیادہ رقم کے ہتھیار خریدے گئے ہیں۔ 65 فیصدی ڈیفنس کا سازو سامان بھی بیرونی ممالک سے خرید رہا ہے۔ مرکز کے تازہ فیصلے سے غیر ملکی ڈیفنس کمپنیوں کے لئے بھارت میں سرمایہ کاری کے راستے کھلیں گے۔ وہ اپنے کارخانے یہاں قائم کرکے بھارت کو ڈیفنس سامان کی سپلائی کرسکیں گے۔ یہ فیصلہ ’میک ان انڈیا‘ کو بڑھاوا دینے کے لئے تو ٹھیک ہے کیونکہ غیر ملکی کمپنیاں دیش میں اپنے ہتھیار بنا کر یہاں فروخت کریں گی۔ کچھ لوگوں کو روزگار بھی ملے گا لیکن ڈیفنس سیکٹر میں خود کفالت کیسے حاصل ہوگی تمام ڈیفنس سیکٹر میں ایف بی آئی بڑھانے کا فیصلہ صحیح تو ہے لیکن بھارت میں غیر ملکی سرمائے کو لیکر جس طرح کا ماحول ہے اس سے حالات پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ یہ اس دور کا اثر ہے جو کنٹرول معیشت تھی اور ہر غیر ملکی چیز کو شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا تھا لیکن پارٹیاں اب اس کا استعمال سیاسی فائدے کے لئے کرتی ہیں۔ بھاجپا جب اپوزیشن میں ہوا کرتی تھی تو وہ ایف بی آئی کے ہر پرستاؤ کی مخالفت کیا کرتی تھی اور اب دیگر اپوزیشن پارٹیاں کررہی ہیں۔ بہرحال سرکار ہوشیار رہے تو 100فیصد ایف بی آئی کو اپنے مفاد میں موڑا جاسکتا ہے۔
(انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟