پاک صوبائی سرکار نے آتنکی فیکٹری کو 30 کروڑ روپے دئے
امریکہ کے محکمہ دفاع پینٹاگن نے اپنی چھ ماہی رپورٹ میں کہا کہ پاکستان میں آتنک وادیوں کی پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکہ مسلسل پاکستان کے ساتھ ان قدموں کے بارے میں صاف رہا ہے جو اسے سلامتی کا ماحول بہتر بنانے اور دہشت گردوں اور کٹر پسندگروپوں کو محفوظ پناہ گاہ نہ ملنے دینے کے لئے اٹھانی چاہئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے سکیورٹی اور افغانستان میں استحکام کی بات چیت تو متاثر ہوتی ہی ہے بلکہ ساتھ ساتھ سلامتی تعاون جیسے دیگر اشوز پر بحث کے دوران امریکہ پاکستان باہمی رشتوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اوبامہ بن لادن کو چھپائے رکھنے کے واقعہ کے بعد پاکستان میں سی آئی اے کے سیکشن چیف کو زہر دے دیا جاتا ہے۔ وہ امریکہ واپس آگئے ان کا اور سی آئی اے کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستانی آئی ایس آئی نے زہر دیا۔ میں ان سے متفق ہوں۔ پاکستان ہر کسی کے ساتھ کھیل کھیل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا سارا پیسہ لے کر یہ آئی ایس آئی کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا آخر کار ان طالبان اور افغانستان کے ہاتھ میں جاتا ہے جو امریکیوں کا قتل کررہے ہیں۔ دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے پاکستان کا چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوا ہے۔ یہاں کے خیبر پختون خواہ صوبے کی حکومت نے اپنے بجٹ میں افغانستان طالبان سے وابستہ ایک مدرسے کو30 کروڑ روپے گرانڈ کے طور پر دئے ہیں۔ اس مدرسے کو آتنکی فیکٹری کے طور پر مانا جاتا ہے۔ طالبان افغان کے سابق سرغنہ ملا عمر سمیت کئی سینئر آتنکی یہاں کے طالبعلم رہ چکے ہیں۔ یہ اعلان صوبے کے وزیر خزانہ شاہ فرمان نے اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے کیا تھا۔ طالبان افغانستان سے جڑے مدرسوں میں جہادیوں کی یونیورسٹی کہلاتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ میں فخر کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ دارالاحقانیہ نوشیرہ کا سالانہ خرچ کے لئے 30 کروڑ روپے دئے جارہے ہیں۔ قابل ذکر ہے پاکستان کو امریکی مدد پر بحران اسی حقانی نیٹ ورک کی وجہ سے ہے۔ طالبان کے سابق سرغنہ ملا عمر کو اسی مدرسے سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی ہے مدرسے کے سابق طلبا میں حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی اور ہندوستانی بر صغیر القاعدہ کا سرغنہ یٰسین عمر اور افغان طالبان کا سرغنہ ملا اختر منصور شامل ہیں۔ حیرانی تو اس بات پر ہے کہ امریکہ سب کچھ جانتے اور سمجھوتے ہوئے بھی پاکستان کو اقتصادی مدد دیتا ہے۔ پاکستان کی اس بات کو چھپاتا بھی نہیں ہے۔ یہ ہے امریکہ کی’ وار آن ٹیرر‘ کی لڑائی کا دوہرہ چہرہ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں