کیا سرکار امیر مندروں کو ٹیکس کے دائرے میں لائے گی؟
دیش بھر میں اکثر مذہب بڑی بحث کا موضوع ہوتا ہے کہ بھارت کے مندروں کے پاس بے پناہ دھن دولت ہے لیکن یہ پیسہ سرکار کے کام نہیں آتا ہے۔ سرکار نے اب اس پر اپنی نگاہیں ٹیڑھی کر لی ہیں۔ ذرائع پر یقین کریں تو مرکزی سرکار دیش بھر کے امیر مندروں کے ساتھ ساتھ دیگر مذہبی مقامات کو بھی ٹیکس کے دائرے میں لانے کی کوشش میں ہے۔ حقیقت میں سرکار ٹرسٹ پر شکنجہ کسنے کی کوشش میں لگی ہے۔ ابھی تک ٹرسٹ ٹیکس کے دائرے میں نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت بڑی رقم بے کار پڑی رہتی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ ان پیسوں کو مین اسٹریم میں لانے کے لئے حکومت غور کررہی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے پچھلے دنوں ہی8 سکریٹریوں کا ایک گروپ بنایا ہے۔ جنہیں بڑی تبدیلی کے لئے سفارشیں دینی ہیں۔ ان میں سے کئی سفارشوں کو بجٹ میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ سکریٹریوں کے گروپ نے مذہبی مقامات کو بھی انکم ٹیکس کے دائرے میں لانے کی سفارش کی ہے لہٰذا مندر، مسجد، گورو دوارہ اور گرجا گھر میں انکم ٹیکس کے دائرے میں آسکتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ دیش بھر میں درجنوں مندر ایسے ہیں جن کے پاس زبردست جائیداد ہے لیکن ان پیسوں کا استعمال دیش کی ترقی میں نہیں ہو پارہا ہے۔ سکریٹریوں کے گروپ نے سفارش کی ہے کہ جن ٹرسٹوں کے پاس ان مندروں کا دائرہ اختیار ہے، اس کو بھی ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے۔ایسے میں اگر اس سفارش کو مان لیا جاتاہے تو دیش کے تمام بڑے مندروں کے ٹرسٹ اس کے دائرے میں آجائیں گے۔ بتا دیں ایک اندازے کے مطابق اس وقت دیش میں10 بڑے مندر ہیں۔ یہ ہیں پدمنابھ سوامی مندر، سدھی ونائک مندر، سومناتھ مندر، شری جگناتھ مندر، کاشی وشواناتھ مندر، گورو ایور مندر، مناکشی امن مندر وغیرہ ایسے مندر ہیں جن کے پاس بے شمار جائیداد ہے۔ اگر سرکار ان مندروں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کا فیصلہ کرتی ہے تو ظاہر ہے کہ ان مندروں سے جڑے لوگ اس کی مخالفت کریں گے اور ایک نیا تنازعہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ سرکار کی اپنی مجبوری ہے کہ اسے پیسہ چاہئے، خزانہ خالی ہے جہاں سے بھی ممکن ہوسکے پیسہ اکٹھا کرنے کی کوشش کرے گی۔ ویسے زیادہ تر مندر سماج کی بھلائی کے لئے کئی طرح کی اسکیمیں چلا رہے ہیں جن میں اسکول، کالج،ہسپتال وغیرہ شامل ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں