بہت خوفناک تھی مرتھل کی وہ رات

ہریانہ کے جاٹوں کو ریزرویشن ملے یا نہ ملے لیکن اس کی آڑ میں جو کچھ 22-23 فروری کو این ایچ۔1 پر مرتھل کے پاس ہوا ، اس سے غیر جاٹ فرقے کی عزت کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ دنیا کی نظروں میں جاٹ فرقے کی ساکھ اور عزت دونوں کو بھاری دھکا لگا ہے جس کی تکمیل شاید کبھی نہ ہوسکے۔ ایک ایسا کالا دھبہ لگا ہے جو دھل نہیں سکتا۔ہریانہ میں جاٹ تحریک کے تشدد کی لپٹوں نے سماجی تانے بانے کو کس قدر جھلسادیا ہے اس کے ڈراؤنے عکس اب سامنے آنے لگے ہیں۔ زخمیوں کے دم توڑ جانے سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ صنعتی انجمنوں کے تجزیئے کے مطابق قریب ایک ہزار کروڑ کی املاک خاک ہوگئی ہے۔سب سے گھناؤنی اور دردناک تصویر تو اجتماعی آبروریزی کے مبینہ وارادات سے ابھرتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ مبینہ طور پر دہلی سے لگے مرتھل کا سامنے آیا ہے۔ گزشتہ22-23 فروری کو دہلی ۔چنڈی گڑھ ہائی وے پر راجدھانی سے محض48 کلو میٹر دور مرتھل جو ڈھابوں کے لئے مشہور ہے، یہاں عورتوں کے ساتھ زیادتی ہوئی یا نہیں یہ تو ریاستی سرکار و پولیس انتظامیہ کی جانچ کے بعد ہی پتہ چلے گا، لیکن ہائی کورٹ کی پھٹکار کے بعد سرکار وپولیس بیحد سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے۔ کچھ تو ہوا تھا صبح3 بجے کے قریب خبر ایسے تو نہیں پھیلتی لیکن اس خبر میں واقعہ کا تذکرہ تھا کہ سکھدیو ڈھابے کے پاس بنے ایک نامی ہوٹل کے ملازم نے دعوی کیا کہ آبروریزی کی واردات ہوئی تھی۔ صاحب کچھ تو ہوا ہے، شرپسندوں نے پہلے کاروں کو آگ لگائی اس کے بعد عورتوں کو نشانہ بنایا۔ جہاں اس واردات کو انجام دیاگیا وہاں جمعہ کو اندھیرے تک عورتوں کے اندرونی کپڑے اور لینگنگ اور دیگر کپڑے ملے ہیں۔ انہیں دوپہر بعد جگہ سے ہٹا دیاگیاتھا۔ دوسری طرف ڈی ایس پی ستیش کمار نے اس واردات کو افواہ بنا کر آبروریزی کے واقعہ سے صاف طور پر انکار کیا ہے۔ موقعہ واردات سے50 میٹر دوری پر واقع مشہور سکھدیو ڈھابہ ہے۔ یہاں کی پارکنگ میں 20 سے زیادہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر گینگ ریپ کے بعد عورتیں مدد کیلئے بھاگیں توان کی تصویر سی سی ٹی وی فٹیج میں ضرور قید ہوئی ہوں گی۔ فٹیج سے واردات کی سچائی جاننے میں مدد مل سکتی ہے۔ حسن پور کے سرپنج جے نارائن نے اس واردات سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے گاؤں میں اگر کچھ ایسا ہوتا تو انہیں پتہ چل جاتا۔ یہ گاؤں کو بدنام کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ تحریک کے دوران 10 عورتوں سے آبروریزی کے واقعہ کے بعد جب حکومت کے اعلی افسران نے سونی پت کا دورہ کیا تو ایک متاثرہ خاندان نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی بات تو قبول لیکن چھیڑ خانی یا لوٹ مار سے انکار کیا ہے۔گننور کے ڈی ایس پی ستیش کمار نے بتایا کہ مبینہ طور پر گینگ ریپ معاملے کی گہرائی سے چھان بین کی جارہی ہے۔ فورنسک ٹیم کھیتوں سے برآمد کپڑوں کو جانچ کیلئے لے گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ پرانے کپڑے ہیں جنہیں پھینکا گیا ہے۔ بہرحال پولیس نے ایک کنٹرول روم بھی بنایا ہے جہاں متاثرہ فریق پولیس یا کورٹ میں شکایت کرسکتے ہیں۔بدامنی تحریک کے دوران بھڑکے تشدد سے پریشان ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھٹر ایک بار تو استعفیٰ دینے کوتیار ہوگئے تھے انہوں نے یہ فیصلہ جاٹ وزرا کی طرف سے صحیح جانکاری نہ دینے کی وجہ سے لیا تھا۔ ریواڑی سے بھاجپا ممبر اسمبلی رندھیر سنگھ نے دعوی کیا کہ جاٹ وزرا کے رول سے دکھی کھٹر وزیر اعلی کا عہدہ چھوڑنا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جاٹ وزرا نے وزیر اعلی کو تشدد کی صحیح رپورٹ نہیں دی تھی۔ وہ مسلسل جاٹ سماج کو منا لینے کی بات کہتے رہے جبکہ تشدد بڑھتا چلا گیا اور تشدد برپا کرنے والوں کی بربریت کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور انہیں تلاش کر سخت سے سخت سزا دی جانی چاہئے۔ پولیس انتظامیہ کی ذمہ داری طے ہونی چاہئے۔ جاٹ تحریک کے لیڈروں کو بھی ایسے واقعات کے لئے کم سے کم پبلک طور سے معافی مانگی چاہئے اور ان جرائم پیشہ کو تلاش کر عدالت کے سامنے لانا چاہئے۔ آندولن کرنے کا حق سب کو ہے مگر جس آندولن سے ایسی بربریت پھیلنے لگے اس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!