آخر کون کون ہیں 4 لاکھ قرض کے ڈیفالٹر

سرکاری بینکوں میں ڈوبے ہوئے قرض یا عدم ادائیگیوں کی وجہ سے 4 لاکھ کروڑ کا بٹہ لگنا دیش کی معیشت کے لئے خطرے کی گھنٹی تو ہے ہی ساتھ ساتھ اس میں مقروضین اور بینکوں کی ملی بھگت کی بھی بو آتی ہے۔ حال ہی میں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے عزت مآب سپریم کورٹ نے بھارتیہ ریزرو بینک کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ بینکوں سے 500 کروڑ روپے یا اس سے زیادہ کا قرض لیکر ڈیفالٹر کرنے والوں کی لسٹ دستیاب کرائے۔عدالت نے ریزرو بینک سے6 مہینے کے اندر ان کمپنیوں کی بھی لسٹ مانگی ہے جن کی قرض اسکیموں کے تحت ڈھانچہ بندی کی گئی ہیں۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی والی بنچ نے لون ڈیفالٹروں کی لسٹ سیل بند لفافے میں پیش کرنے کو کہا ہے۔ کورٹ جاننا چاہتی ہے پبلک سیکٹر کے بینک اور مالیاتی ادارے کس طرح بغیر موضوع گائڈ لائنس پر بڑے پیمانے پر قرض دے رہے ہیں۔ کورٹ یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ وصولی کے لئے مناسب انتظام کئے گئے ہیں یا نہیں؟ ایک این جی او نے2005ء میں ایک مفاد عامہ کی عرضی داخل کی تھی جس میں سرکاری کمپنی ہڈکو کی طرف سے کچھ کمپنیوں کو دئے گئے قرض کا اشو اٹھایا گیا تھا۔ وکیل پرشانت بھوشن نے این جی او کی طرف سے پیش ہوکر کہا کہ 2015ء میں 40 ہزار کروڑ روپے کا کارپوریٹ قرض معاف کردیا گیا ہے۔ سال2013 سے2015 کے درمیان 1.14 لاکھ کروڑ کا 29 سرکاری بینکوں نے قرض معاف کیا ہے۔ یہ رقم ان بینکوں کے کل بازار ویلیو سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ اگر اس میں سرکاری بینکوں کے ایسے قرض بھی شامل کرلئے جائیں جنہیں مستقبل میں ایم پی اے اعلان کیا جاسکتا ہے تو ڈوبنے والے قرض کی یہ رقم دوگنی ہوکر 8لاکھ کروڑ کے پار چلی جائے گی۔ ایم پی اے کو بڑھنے سے روکنے کی کوششوں کا نتیجہ ’’ مرض بڑھتا گیا ، جوں جوں دوا کی‘‘ جیسا رہا۔اگر 4 لاکھ کروڑ کی ایم پی اے کھاتے کی یہ رقم بینکوں کو مل جائے تو دیش کی بدحال معیشت کیلئے ایک سنجیونی کی طرح کام کرسکتی ہے لیکن تمام بڑی کمپنیاں، صنعتکاروں اور کاروباری اداروں کے پاس اسے لوٹانے کے نام پر مندی کی مار، کاروبار میں گھاٹے سے لیکر پروجیکٹ ٹھپ ہوجانے وغیرہ جیسے بہانوں کی لمبی فہرست رہتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جن کمپنیوں نے قرض نہیں چکایا ہے وہ سرکاری بینکوں سے 2 سے لیکر 9 بار تک پھر سے قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ اپنے سیاسی فائدے کے لئے حکمراں پارٹی قرض معافی یا اسپانسر اسکیموں میں بینکوں کی اچھی خاصی رقم جھونک دیتے ہیں۔ سرکاری بینک چھوٹے چھوٹے قرض منظور کرنے اور ان کی وصولی میں تو بے رحم خونخوار بن جاتے ہیں لیکن کارپوریٹ گھرانے اور بڑی کمپنیوں کو سینکڑوں کروڑ روپے کا قرض خیرات کی مانند بانٹ کر اس کی وصولی سے آنکھیں پھیرتے رہتے ہیں۔ قرض وصولی کیلئے سرکار کے پاس گرفتاری سے لیکر قرقی جیسے طریقے ہیں لیکن ایسا کرنے کی قوت ارادے میں کمی ہے۔ اس سب کے چلتے ایم پی اے سے نجات ملنے کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!