5 سال بعد شام میں جنگ بندی

تقریباً 5 سال کی خونی لڑائی کے بعد آخر کار شام میں سنیچر کے روز سے جنگی بندی ہوگئی ہے۔ امریکہ اور روس نے اعلان کیا ہے کہ شام میں سنیچر سے تاریخی جنگ بندی لاگو ہوگئی ہے لیکن اس جنگ بندی میں اہم جہادی خطرناک تنظیم اسلامک اسٹیٹ اور النصرہ فرنٹ شامل نہیں ہے۔ پانچ برس سے جاری اس لڑائی کے اہم اپوزیشن گروپ نے اس اعلان کو مشروط منظوری دے دی ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب ایک دن پہلے دمشق کے قریب ہوئے سلسلہ وار دھماکوں میں 134 لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ متوفین میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔واشنگٹن اور ماسکو نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ دمشق کے وقت کے مطابق وسطی شینا سے جزوی جنگ بندی شروع ہوگی اس سے اس لڑائی پر روک لگ جائے گی جس میں 260000 سے زائد لوگ مارے گئے ہیں۔ آدھی سے زیادہ آبادی بے گھر ہوگئی ہے۔ امریکہ اور روس کی پہل سے کئے گئے اس عارضی جنگ بندی کو مختلف فریقین کے بیچ خونی لڑائی کے خاتمے کی سمت میں ایک اہم قدم مانا جائے گا۔ اس خانہ جنگی میں 2 لاکھ60 ہزار سے زیادہ لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ شام میں علاقائی کنٹرول کی پیچیدہ گڑ بڑی نے سمجھوتے کو نافذ کرنے کی کوشش کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔شام میں2011 سے ہی بربریت آمیز خانہ جنگی چھڑی ہوئی تھی۔ شامی’’ آبزویٹنری فار ہیومن رائٹس‘‘ کے مطابق شام یا روس کے سمجھے جارہے جنگی جہازوں نے نارتھ صوبہ الگپا اور وسطی صوبہ ہاما میں 7دیہات پر ایتوار کو بمباری کی ۔ فی الحال یہ صاف نہیں ہے کہ جن علاقوں میں حملے کئے گئے وہ جنگ بندی کے دائرے میں آتے بھی ہیں یا نہیں۔ اسلامک اسٹیٹ جہادی گروپ اور القاعدہ سے وابستہ النصرہ مورچے کے قبضے والے علاقے کو جنگ بندی کے دائرے سے الگ رکھا گیا ہے۔ جنگ بندی ایک عزم عہد کی شرط ہے۔ ان شرائط میں گھیرا بندی ہٹانا، قیدیوں کو چھوڑنا، شہریوں پر بمباری روکنا، فلاحی مدد شامل ہے۔ ادھر برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ کا کہنا ہے کہ امریکہ اور روس کے ذریعے اعلان کردہ شام جنگ بندی تبھی کام کرے گی جب تک شامی حکومت اور روس کی طرف سے برتاؤ میں بڑی تبدیلی لائی جائے گی۔ ادھر شام کے صدر بشر الاسد نے روس اور امریکہ کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کئے جانے کے کچھ دیر بعد کہا کہ 13 اپریل کو پارلیمانی چناؤ کرائے جائیں گے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی صنع نے یہ جانکاری دی ہے کہ بشرالاسد نے ایک فرمان جاری کیا جس میں انہوں نے شام میں ہر صوبے کے لئے سیٹوں کے بٹوارے کا ذکر کیا ہے۔ شام میں آخری بار مئی 2012ء میں پارلیمانی چناؤ ہوئے تھے اور یہ آئینی زون میں امن پیدا کرنے کے لئے اچھا قدم ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟