کنہیا کو مشروط ضمانت:ہائی کورٹ کے سخت ریمارکس

یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے؟ افضل گورو اور یعقوب میمن کے جوڈیشیل قتل کی دہائی دینے والے جے این یو طلبا یونین کے صدر کنہیا کمار کو آخر کار عدالت کی پناہ میں جانا پڑا اور ضمانت کی عرضی داخل کرنی پڑی اور ہماری عدالتوں کا منصفانہ رویہ دیکھئے کہ ہائی کورٹ نے کنہیا کو ضمانت بھی دے دی حالانکہ یہ مشروط ضمانت ہے۔ جسٹس پرتیبھا رانی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ آئین میں سبھی کو اظہار رائے کی آزادی کا حق ہے، لیکن اس آزادی کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں۔ حق اور فرض ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ جسٹس پرتیبھا رانی کی بنچ نے کنہیا کو10 ہزار روپے کے ذاتی مچلکہ اور ایک ضمانتی پر مشروط ضمانت دے دی۔ ضمانتی کنہیا کمہار یا جے این یو کا کوئی پروفیسر یا ادارے سے وابستہ کوئی ممبر ہونا چاہئے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے دہلی پولیس کو جھٹکا ضرور لگا ہے۔ اپنے 23 صفحات کے فیصلے میں بنچ نے کہا کہ پولیس کے پاس ایسا کوئی ویڈیو نہیں ہے جس سے کنہیا دیش مخالف نعرے بازی کرتا دکھائی دے رہا ہو۔ پولیس نے ویڈیو کی ہی بنیاد پر یہ معاملہ درج کیا تھا۔ عدالت نے انتم ضمانت کی شرائط میں کنہیا کو ایک حلف نامہ بھی دینے کو کہا جس میں اسے لکھنا ہوگا کہ وہ عدالتوں کی شرائط کی تعمیل کرے گا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کئی تلخ ریمارکس بھی دئے ہیں اور نصیحتیں بھی دی ہیں۔ ایسے نعرے بازی کرنے والے تبھی تک آزاد ہیں جب تک دیش کے فوجی سرحد پر اپنی سلامتی یقینی کررہے ہیں۔ کیا افضل گورواور مقبول بھٹ کی حمایت میں نعرے بازی کرنے والے ایک گھنٹے بھی ایسے ماحول میں رہ سکتے ہیں؟ جو دیش مخالف انفکشن سے آلودہ ذہنیت سے متاثر ہے ایسے طلبا کو کنٹرول کی جانا ضروری ہے، تاکہ یہ ایک مہاماری نہ بن جائے۔ جب انفکشن ایک حصے میں پھیلتا ہے تو اینٹی بایو ٹک دوائیں بھی کام نہیں کرتیں ایسے میں علاج کا دوسرا طریقہ اپنا کرکے ہی علاج کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ کبھی کبھی سرجری کی جاتی ہے لیکن جب خاتمہ ہو جاتا ہے تو اعضا کو کاٹنا بھی پڑتا ہے۔ افضل گورو اور مقبول بھٹ کے پوسٹر پکڑے طلبا کو محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ افضل گورو کو ہماری پارلیمنٹ پر حملے کا قصوروار پایا گیا تھا اس کی برسی پر نعرے بازی ملک مخالف نظریات کو جنم دیتی ہے۔ ہائی کورٹ نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے صدر ہونے کے ناطے کنہیا کمار کی ذمہ داری طے کی ہے کہ وہ یونیورسٹی کمپلیکس میں ہونے والی کسی طرح کی دیش مخالف سرگرمیوں پر قابو کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ عدالت نے کہا کہ جے این یو کے استاذہ کو راستے سے بھٹکے طلبا کو صحیح راستے پر لانا چاہئے۔ عدالت نے کہا کہ وہ اس معاملے میں فیصلہ دیتے ہوئے خود کو چوراہے پر کھڑی پاتی ہے۔ عرضی گزار ایک دانشور طبقے سے ہے اور پی ایچ دی کررہا ہے۔ جے این یو دانشوروں کے مرکز کی شکل میں جانا جاتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی شخص کا سیاسی نظریہ یا آئیڈیالوجی ہوسکتی ہے اسے آگے بڑھانے کے لئے ہر کسی کے پاس اختیار ہے، لیکن یہ محض آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونا چاہئے۔ کنہیا کمار کو ضمانت دینے کے فیصلے کی ابتدا جج موصوفہ نے اداکار منوج کمار کی دیش بھکتی پر مبنی فلم ’اپکار‘ کے گانے سے کی تھی۔ ’میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے اگلے ہیرے موتی ‘ کا ذکر کرتے ہوئے جج صاحبہ پرتیبھا رانی کی بنچ نے کہا کہ نغمہ نگار ’اندور ‘ کا یہ دیش بھکتی گیت مادر وطن کے لئے الگ الگ رنگ اور پیار کی نمائندگی کر خوبیوں کی علامت ہے۔ یہ وقت ہے کہ جب اس بسنت کے موسم میں قدرت کے سبھی رنگ کے پھول کھلتے ہیں اس بسنت میں نامور جے این یو جو دہلی کے دل میں قائم ہے، وہاں کیوں امن کے رنگ میں بھنگ مل گیا ہے۔طلبا اور ادارے کے ممبروں اور اس قومی یونیورسٹی کے انتظامیہ کو اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!