دہلی میں گورننس کا مسئلہ ہے :سپریم کورٹ کا سخت ریمارکس

جس دن سے جناب اروند کیجریوال نے دوسری مرتبہ وزیر اعلی کا عہدہ سنبھالا ہے تبھی سے مرکزی حکومت اور لیفٹیننٹ گورنرسے سوائے ٹکراؤ کے اور کچھ نہیں کیا۔ہربات میں تنازعہ کھڑا کرنا بیکار کے تنازعوں میں الجھا رہنا، وزیر اعظم کو کوسنا ،بس یہی سب کچھ کیا ہے۔ شاید تمام عمر آندولن کاری رہے ہیں انہیں صرف یہی راستہ راس آتا ہے۔ نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ دہلی کی عوام کا عام آدمی پارٹی سے پوری طرح سے بھروسہ اٹھ چکا ہے۔ اس کے کئی اشارے بھی ملے ہیں۔ سب سے تازہ اشارے دہلی یونیورسٹی اسٹوڈینٹ یونین کے چناؤ تھے جس میں ان کی اسٹوڈینٹ ونگ کو کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ روز روز نئے تنازعے پیدا کرنے سے عزت مآب سپریم کورٹ بھی تنگ آگئی ہے اس نے پیر کو مرکزی حکومت اور دہلی حکومت کے درمیان جاری رسہ کشی پر سخت تبصرہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ دونوں کے درمیان جاری ٹکراؤ سے وہ اچھی طرح واقف ہے۔ دہلی میں حکمرانی سسٹم کو لیکر کورٹ نے کہا کہ اسے مرکز اور دہلی سرکار کے درمیان ٹکراؤ کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو پیش آرہی گورننس کی پریشانی کا پتہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دہلی کی عوام گورننس کے مسئلے کا سامنا کررہے ہیں۔ ساتھ ہی اس نے اس مسئلے میں دخل دینے سے انکارکرتے ہوئے کہا کہ وقت آنے پر عوام ان کے کام کاج کو دیکھ کر اپنا فیصلہ سنائے گی۔ جسٹس ٹی ایس ٹھاکر اور جسٹس گوپال گوڑ کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ دہلی میں حکومت اور انتظامیہ کولیکر مسئلہ ہے اور کئی معاملوں کو لیکر مرکز اور دہلی سرکار کے درمیان اتفاق رائے نہیں بن پایا۔ اخباروں میں اس سے متعلق خبریں بھری پڑی ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ دونوں حکومتیں آمنے سامنے بیٹھ کربات چیت کریں۔ بنچ نے کہا کہ اگرحکومت کو لیکر کمی ہے تو عام جنتا وقت آنے پر اس کے کام کاج کو دیکھتے ہوئے اپنا فیصلہ کرے گی۔ عدالت نے یہ تبصرہ ایک مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کیا ہے۔ عرضی گزار کے وکیل سدھارتھ لوتھرا نے ڈویژن کے سامنے کہا کہ دہلی میں حکومت نظام صحیح نہی ہے اس وجہ سے لوگوں کو کئی سنگین پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عرضی میں کورٹ سے اپیل کی گئی کہ مرکز اور دہلی سرکار کو یہ ہدایت دی جائے کہ وہ اپنا کام اس طرح سے کریں کہ لوگوں کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ دونوں آئینی ذمہ داریوں کو پوری نہیں کررہی ہیں۔ لوگ ڈینگو سے مررہے ہیں اور دونوں حکومتیں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کررہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے یہ سخت ریمارکس اروند کیجریوال اور ان کی حکومت کی کارگزاری کو صحیح بیان کرتی ہے۔ آئے دن لیفٹیننٹ گورنر یا وزارت داخلہ سے الجھنے کے سوائے اس سرکار نے کیا ہی کیا ہے۔ اگر وزارت داخلہ یا لیفٹیننٹ گورنر اتنے ہی اڑنگے باز تھے تو محترمہ شیلا دیکشت نے 15 سال اتنا اچھا انتظامیہ کیسے چلایا؟ ان کے وقت میں بھی این ڈی اے سرکار ہوا کرتی تھی لیکن شیلا جی اس وقت کے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی سے مل کر اپنے سب کام کروا لیا کرتی تھیں ان کی نیت کام کرانے کی تھی فضول تنازعے کھڑے کرنے کی نہیں تھی۔ امید کرتے ہیں کیجریوال اپنے رویئے کو بدلیں گے اور اپنے حکومت کو ٹھیک ٹھاک طریقے سے دہلی کی عوام کی بھلائی کی طرف لگائیں گے اور ان تنازعوں سے کچھ حاصل ہونا والا نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!