پاکستان دنیا کا سب سے خطرناک دیش ہے

دی انٹر نیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کاکہناہے کہ سال 2014میں نیوز میڈیا کے لئے پاکستان دنیا کا سب سے خطرناک دیش ثابت ہواہے۔ایمنٹسی انٹر نیشنل کے مطابق سال 2008 سے 2014کے بیچ پاکستان میں 34صحافی مارے گئے۔ وزیراعظم نواز شریف کی اس یقین دہانی کے باوجود صحافیوں کو بھرپور سیکورٹی دی جائے گی۔ ان پر حملے جاری ہیں گزشتہ دنوں پاکستان کے میڈیا ملازمین پر بڑھتے حملوں کے بیچ بندوقچیوں نے پاکستان کے ایک بڑے صحافی کو ان کے گھر کے باہر ہی مار ڈالاتھا۔جیو نیوز اور سما ٹی وی سمیت مختلف نیوز چینلوں سے وابستہ رہے 42 سالہ آفتاب عالم بدھوار 9 ستمبر کو اپنے بچوں کو گھر چھوڑ کر شہر کے نارتھ سیکٹر سی( کراچی) علاقے میں اپنی کار سے جارہے تھے تبھی موٹر سائیکل سوار دو بندوقچیوں نے انہیں گولی کانشانہ بنایا۔ عالم کے سرگردن اورسینے میں کئی گولیاں لگی اس کے بعد فورا ہی عباسی شہید ہسپتال میں لے جایا گیا جہاں ڈاکٹرو ں نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔ سینئر پولیس افسر منیر شیح نے بتایا کہ یہ نشانہ بنا کر قتل کرنے کامعاملہ ظاہر ہوتا ہے اسی ہفتے ایک دن کے اندر صحافیوں و میڈیا ملازمین پر تین الگ الگ حملے ہوئے جن میں دو افراد مارے گئے اور دوبری طرح زخمی ہوئے۔ کراچی میں جیو نیوز کی وین پر ہوئے حملے میں ایک سٹیلائٹ انجینئر مارا گیا جب کہ ڈرائیور بری طرح زخمی ہوگیا۔ اس واردات کے چند گھنٹوں کے اندر اسی شہر میں جیو نیوز کے ہی صحافی آفتاب عالم کو مار ڈالا گیا۔ ادھر پشاور میں پی ٹی سے وابستہ صحافی کو ایک نامعلوم بندوقچی نے اڑا دیا۔ سال 2008میں جب سے پاکستان میں جمہوریت کی دوبارہ بحالی ہوئی ہیں، پاکستانی میڈیا نے فوج اور قومی سیکورٹی ایجنسیوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے کارناموں کا باہمت خلاصہ کیا ہے اس کا خمیازہ بھی اسے بھگتنا پڑا ہے۔ جیو نیوز نے جب یہ انکشاف کیا کہ اس کے اسٹار اینکر حامد میر پر 2014میں ہوئے قاتلانہ حملے کے پیچھے آئی ایس آئی کاہاتھ تھا تو افسران جیو نیوز کو بند کرنے تک کی دھمکی دے دی تھی۔ پاکستانی طالبان جیسے آتنکی گروپوں کے نشانے پر پتر کار ہیں اور کئی پاکستانی صحافی یہ مانتے ہیں کہ نوکری سے نکالے جانے اورمارے جانے کے خوف سے وہ کافی کاٹ چھانٹ کر خبر بناتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے وعدہ کیا ہے کہ کراچی کو جرائم پیشہ اور دہشت گروپوں سے آزاد کرانے کا کام جاری ہے اور اگلے دو سال کے اندر یہ شہر پوری طرح سے محفوظ ہوجائے گا۔ شریف اس سے بہتر کرسکتے ہیں۔ دوسال کاوقت ایک لمبا انتظار ہے اور صرف آتنکی ہی پریس کی آزادی کے لئے خطرہ نہیں ہے جب تک صحافی کو دھمکانے والے فوجی افسر، آئی ایس آئی اور دیگر ایجنسیوں کی ذمے داری طے نہیں ہوتی تب تک نواز شریف کے وعدے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟