اور اب بھرشٹاچار کے الزام میں دو جج گرفتار
بھارت میں بھرشٹاچار کی جڑیں اتنی گہری ہوچکی ہیں کہ کوئی بھی ایسا میدان نہیں بچا جو اس کی چپیٹ میں نہ آیا ہو۔ چاہے وہ عدلیہ ہو اور چاہے وہ افسر شاہی ہو۔پہلے بار کرتے ہیں نچلی عدلیہ کی۔ گجرات میں نچلی عدالت کے دو ججوں کو گجرات ہائیکورٹ کے ویجی لنس ڈپارٹمنٹ نے بھرشٹاچار مخالف ایکٹ کے تحت گرفتار کیا ہے۔ ان دونوں کو سال2014 میں عدالت میں تقرری کے دوران معاملوں کے نپٹارہ کرنے کے لئے رشوت لینے کے الزام میں گزشتہ ہفتے سسپنڈ کردیا گیا تھا۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ فرسٹ کلاس رینک کے دونوں ججوں اے ڈی آچاریہ اور ٹی ڈی انعامدار کو ولساڑ کی ایک عدالت نے شکروار کو14دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا۔یہ دونوں من موافق فیصلہ سنانے کیلئے پیسے کے لین دین پر چرچا کرتے ہوئے مبینہ طور پر کیمرے میں قید کئے گئے تھے۔ ہائی کورٹ کی ویجی لنس بینچ نے واپی کے وکیل جگت پٹیل کی شکایت پر معاملے میں جانچ شروع کی تھی۔ ہائی کورٹ میں پٹیل نے الزام لگایا تھا کہ یہ دونوں جج بھرشٹاچار میں شامل ہیں۔ پٹیل کی شکایت کے مطابق دونوں ججوں کے عدالتی کمرے میں خفیہ کیمرے لگائے گئے تھے جس میں فروری سے اپریل 2014 کے تینوں مہینوں کی ان کی سرگرمیاں ریکارڈ کرلی۔ ریکارڈنگ میں انہیں فون پر وکیلوں سے اور لوگوں سے معقول حکم سنانے کیلئے پیسے کے لین سین پر بات چیت کرتے سنا گیا۔ دونوں کو تب سسپینڈ کیا گیا جب ویجی لنس سیل نے 10 لوگوں کے ساتھ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ ان لوگوں میں ایک اسٹینوگرافر اور ایک کلرک اور 8 وکیل شامل ہیں جنہوں نے رشوت کے ذریعے کرپادرشٹی حاصل کی۔ ادھر راجستھان کے جے پور میں بھرشٹاچار مخالفت بیورو نے اب تک کا سب سے بڑا رشوت کانڈ کا خلاصہ کرتے ہوئے بدھوار کو ادے پور میں مائننگ محکمے کے ایک اے ڈی جی ایچ کو ڈھائی کروڑ کی رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ اے سی پی نے ان کے ساتھ دو اور بچولیوں کو بھی گرفتار کیا ہے۔ ان کے گھروں سے نوٹوں سے بھرے بیگ ملے ہیں جن کے بارے میں تینوں سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔ اسی درمیان تازہ واقعات میں ادے پور واقعہ مائننگ محکمے کے دفتر سے ہی محکمے کے ای ڈی جی ایم پنکج گہلوت کو ڈھائی کروڑ کی رشوت لیتے پکڑا ہے۔ ہر جگہ ہر محکمے میں بھرشٹاچاری اس لئے بچے رہتے ہیں کیونکہ جس سسٹم کو ان کے خلاف سرگرم ہونا چاہئے وہ خود بھی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔جب پورا کا پورا سسٹم کی کرپٹ ہو تو دیش سے بھرشٹاچار کیسے ختم ہوگا۔ چاہے وہ جج ہوں، نوکر شاہ ہو ، راج نیتا تو ہیں ہی۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ فرسٹ کلاس رینک کے دونوں ججوں اے ڈی آچاریہ اور ٹی ڈی انعامدار کو ولساڑ کی ایک عدالت نے شکروار کو14دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا۔یہ دونوں من موافق فیصلہ سنانے کیلئے پیسے کے لین دین پر چرچا کرتے ہوئے مبینہ طور پر کیمرے میں قید کئے گئے تھے۔ ہائی کورٹ کی ویجی لنس بینچ نے واپی کے وکیل جگت پٹیل کی شکایت پر معاملے میں جانچ شروع کی تھی۔ ہائی کورٹ میں پٹیل نے الزام لگایا تھا کہ یہ دونوں جج بھرشٹاچار میں شامل ہیں۔ پٹیل کی شکایت کے مطابق دونوں ججوں کے عدالتی کمرے میں خفیہ کیمرے لگائے گئے تھے جس میں فروری سے اپریل 2014 کے تینوں مہینوں کی ان کی سرگرمیاں ریکارڈ کرلی۔ ریکارڈنگ میں انہیں فون پر وکیلوں سے اور لوگوں سے معقول حکم سنانے کیلئے پیسے کے لین سین پر بات چیت کرتے سنا گیا۔ دونوں کو تب سسپینڈ کیا گیا جب ویجی لنس سیل نے 10 لوگوں کے ساتھ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ ان لوگوں میں ایک اسٹینوگرافر اور ایک کلرک اور 8 وکیل شامل ہیں جنہوں نے رشوت کے ذریعے کرپادرشٹی حاصل کی۔ ادھر راجستھان کے جے پور میں بھرشٹاچار مخالفت بیورو نے اب تک کا سب سے بڑا رشوت کانڈ کا خلاصہ کرتے ہوئے بدھوار کو ادے پور میں مائننگ محکمے کے ایک اے ڈی جی ایچ کو ڈھائی کروڑ کی رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ اے سی پی نے ان کے ساتھ دو اور بچولیوں کو بھی گرفتار کیا ہے۔ ان کے گھروں سے نوٹوں سے بھرے بیگ ملے ہیں جن کے بارے میں تینوں سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔ اسی درمیان تازہ واقعات میں ادے پور واقعہ مائننگ محکمے کے دفتر سے ہی محکمے کے ای ڈی جی ایم پنکج گہلوت کو ڈھائی کروڑ کی رشوت لیتے پکڑا ہے۔ ہر جگہ ہر محکمے میں بھرشٹاچاری اس لئے بچے رہتے ہیں کیونکہ جس سسٹم کو ان کے خلاف سرگرم ہونا چاہئے وہ خود بھی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔جب پورا کا پورا سسٹم کی کرپٹ ہو تو دیش سے بھرشٹاچار کیسے ختم ہوگا۔ چاہے وہ جج ہوں، نوکر شاہ ہو ، راج نیتا تو ہیں ہی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں