ڈائن اور کالا جادو کا خوف : اندھوشواس یا حقیقت

آئے دن یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ فلاں گاؤں میں ایک عورت کو مار دیا کیونکہ گاؤں والے سمجھتے تھے کہ وہ ایک ڈائن ہے اور کالا جادو کرتی ہے۔ کالا جادو صرف بھارت میں ہی نہیں دنیا کے کئی ملکوں میں کئے جانے کی بھی خبریں ہیں۔ تقریباً ہر مذہب میں اس کا کسی نہ کسی شکل میں ذکر ہے۔بھارت میں اسے تانترک علاج بھی کہا جاتا ہے۔ تانترک بڑی تعداد میں ہمارے دیش میں موجود ہیں لیکن نتیجے کی چاہ چاہے وہ غریب ہو یا امیر ہو ان تانترکوں کی طرف راغب ہوتے ہیں اور بلی کی بھی خبریں آتی رہتی ہیں۔2014ء میں بھارت کی 13 ریاستوں میں ڈائن ٹھہراکر تقریباً160 قتل ہوئے ہیں ان میں سے32 معاملے اکیلے اڑیسہ کا ہیں اور یہ اعدادو شمار سرکاری ہیں۔ حالیہ برسوں میں یہ تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔سال2000 سے اب تک2300 لوگوں جن میں زیادہ تر تعداد عورتوں کی ہے ایسے معاملوں میں مارے گئے ہیں۔ اگست میں ہی جھارکھنڈ کے ایک گاؤں میں پانچ عورتوں کو ان کے گھر سے گھسیٹتے ہوئے باہر لایا گیا اور ڈائن بتاکر ان کو اجتماعی طور پر ہلاک کردیا گیا۔ اس معاملے میں اب تک 27 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گاؤں کی پنچایتیں مبینہ ڈائنوں کو مارنے سے لیکر ان کی آبروریزی کرنے ، اجتماعی اذیتیں دئے جانے اورزہریلے کھانے دینے جیسی سزائیں سناتے ہیں۔ ایک شخص جب جنگل میں جان بچانے کے لئے چھپا ہوا تھا تب اسے اپنے گھروالوں کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ کچھ گھنٹے اس کی زندگی کے سب سے ڈراونے اور طویل گھنٹے ہیں۔ گنیتا نام کے شخص نے پوری رات جنگل کی تاریکی میں گزاری۔ اگلی صبح پاس کے ایک گاؤں کے باشندے نے اسے تلاش کیا اورگنیتا کو پولیس کے حوالے کردیا۔ پولیس افسر نے بتایا کہ اس معاملے میں 10 لوگوں کو اب تک گرفتار کرلیا ہے۔گنیتاکو پولیس کی جانچ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ بغیر کسی اسکولی تعلیم اور کنبے کے مستقبل کو اندھیرے میں دیکھائی پڑتا ہے۔بلا تاخیر مشرا جو کے ایک مقامی این جی او کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ہیں ، کو اس شخص کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ان کا کہنا ہے نہ کبھی یہ شخص پہلے جیسی زندگی جی سکے گا اور نہ ہی کبھی واپس لوٹ کر اپنے گاؤں جاسکے گا۔گنیتا جانتا ہے کے ایک سال بعد 18 سال کا ہوجانے پراسے گھر جانا ہے۔ اس نے بتایا میں کام کرنا شروع کروں گا اور میں اور میرا چھوٹا بھائی یہاں سے دور کسی جگہ پر جاکر رہنے لگیں گے۔17 سال کے گنیتا منڈا کی حالت میں بہتری تو ہے لیکن آج بھی اسے اپنے گھروالوں کی چیخ سنائی دیتی ہے۔ گنیتا کے خاندان کو ڈائن قرار دے کر مار ڈالا گیا تھا۔ گزشتہ جولائی کچھ لوگوں کے ایک گروپ نے گھر میں گھس کر گنیتا کے گھر والوں پر حملہ کردیا۔ حادثے میں اس کے ماں باپ اور چار بھائی بہن مارے گئے۔ گاؤں والوں کے مطابق گینتا کی ماں ایک ڈائن تھی۔مقامی بچوں میں پھیل رہی بیماری کا الزام گنیتا کی ماں پر لگا کر پورے خاندان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ حملہ اپنی نوعیت کا اکیلا معاملہ نہیں ہے۔ ہر سال بھارت کے دیہات میں ایسے کئی معاملے سامنے آتے ہیں۔ اندھوشواس اور ناواقفیت کے سبب ہورہے ایسے واقعات کو روکنے کے لئے مقامی انتظامیہ کی ناکامی باعث تشویش ہے۔ گنیتا نے بتایاکے وہ میری ماں پر چھوٹے بچوں پر کالا جادو کرنے کا الزام لگا رہے تھے۔ اڑیسہ میں پچھلے سال ایک قانون بھی پاس کیا گیا جس میں ڈائن پرتھا کے سبب ہورہی اموات کو روکنے اور اس معاملے میں ہورہے جرائم کو کم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ دیگر ریاستوں میں بھی اس طرح کے قانون ہیں۔ آسام میں پچھلے مہینے ہی ایک نیا قانون نافذ کیا گیا جس میں کسی کوڈائن کہنے پر جیل کی سزا اور جرمانہ ہے۔ صرف قانون بنانے سے مسئلے کاحل شاید ہی ہو۔ اندھوشواس سے نمٹنے کے لئے بہترتعلیم اور بیداری کی ضرورت ہے۔ مہذبی پیشواؤں کو بھی اپنا کردار نبھانا ہوگا۔ دیہاتی آنچل میں بہتر تعلیم سے بیداری بڑھے گی اور اس دقیانوسی کاخاتمہ بھی ہوسکے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟