اور یہ جنگ اسلام کے تحفظ کیلئے جہادی لڑ رہے ہیں

پاکستان کے لئے دہشت گردوں کے خلاف چلائی جارہی مہم ’ضرب غضب‘ کافی مہنگی ثابت ہورہی ہے۔ پیشاور میں 11 ہزار فوجی تو صرف اسکولوں کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں۔ خیال رہے کہ پیشاور میں ہی ایک فوجی اسکول پر 16 دسمبر 2014ء کو دہشت گردوں نے 7گھنٹے تک134 طلبا سمیت150 لوگوں کو مار ڈالا تھا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے حال ہی میں بتایا تھا کہ طالبان کے خلاف آپریشن پر قریب82.62 ارب پاکستانی روپے خرچ ہوں گے تو صرف بے گھر لوگوں کو بچانے پر ہی تقریباً83.48 ارب پاکستانی روپے کا خرچہ آئے گا۔ ایسے میں پاکستان نے امریکہ سے مدد 15 فیصدی بڑھانے کی گزارش کی ہے۔ امریکہ پچھلے 12 برسوں میں پاکستان کو28 ارب ڈالر (تقریباً2922 ارب پاکستانی روپے) کی مدد کرچکا ہے۔پچھلے ہفتے پاکستان کے سب سے بڑے شہر پیشاور میں واقع پاکستانی ایئرفورس کے اڈے پر پاکستانی دہشت گردوں نے زبردست حملہ کیا۔ اس حملے میں ایک کیپٹن سمیت 29 لوگوں کی موت ہونے کی خبر ہے۔ ایئر بیس کے علاوہ دہشت گردوں نے وہاں کی ایک مسجد کو بھی نشانہ بنایا۔ فوج نے بھی جوابی کاروائی میں 13 دہشت گردوں کو مار گرایا تھا۔ بتا دیں کہ فوجی اسکول حملے کے بعد یہ دوسرا بڑا حملہ تھا۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان محمد خراسانی نے ای میل کے ذریعے بتایا کہ ہماری فدائی یونٹ نے یہ حملہ کیا ہے۔ وہیں پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوا نے ٹوئٹ کیا اور آتنکی الگ الگ گروپ بنا کر ایئر بیس میں گھسے تھے۔ انہوں نے کیمپ کے اندر بنی مسجد میں نماز ادا کررہے 16 لوگوں کو مار ڈالا تھا۔ جوابی کارروائی میں سکیورٹی فورس نے بھی 13 آتنکیوں کو مار ڈالا۔ یہ حملہ پاکستان کے فوجی تنصیبات میں ہوئے بڑے آتنکی حملوں میں سے ایک ہے۔ جدید ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں کے گروپ نے پہلے سکیورٹی چوکی پر حملہ بولا اس کے بعد ایئر بیس میں گھس گئے اور جم کر فائرننگ شروع کردی۔ پاکستان کے کسی فوجی تنصیب میں ہوئے اس بڑے حملے میں دھماکے سے بھری جیکٹ پہنے اور ہاتھ سے چلائے جانے وائے گرینیٹ مور ٹار اور اے کے 47 رائفلوں سے مسلح تھے۔ خراسانہ نے دعوی کیا کہ دہشت گردوں نے قریب80 سکیورٹی ملازمین کو گھیر لیا جن میں سے 50 تو مارے گئے لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو پائی تھی۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کا دیش سے صفایا کردیا جائے گا۔ پیشاور میں گھماسان جنگ ہورہی ہے۔ شہر کے دو بڑے ہسپتالوں میں ایمرجنسی کا اعلان کردیا گیا ہے۔ وہاں رک رک کر فائرنگ کی آوازیں راتوں رات سنی جاتی ہیں۔ شہر میں کشیدگی بنی ہوئی ہے اور ہر جگہ سکیورٹی فورس تعینات ہے۔ بڑے دکھ سے پوچھنا پڑتا ہے کہ اسلام کے تحفظ کیلئے یہ کیسی جنگ ہے۔ جہاد ہے جس میں اسکول کے معصوم بچوں کو مسجد میں نماز پڑھ رہے مسلمانوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!