سماجی رشتے کی تھال سے نکلی سیاسی خوشبو!

یہ انوکھا منظر رہا ہوگا کہ ایک طرف سماج وادی پارٹی کے چیف ملائم سنگھ یادو کی موجودگی میں مین پوری کے ممبر پارلیمنٹ پوتے تیج پرتاپ سنگھ یادو کی تلک کی رسموں کے درمیان شہنائی گونج رہی تھی، تو دوسری طرف سیاسی مہارتی ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ شہنائی کی سریلی آواز سے رشتوں میں مٹھاس بھی گھل رہی تھی۔ سڑک سے لے کر ایوان تک ایک دوسرے پر سیاسی تیر چلانے والے گلے ملے تو کھاٹنی سماج وادیوں کے چہرے بھی کھل اٹھے۔ آر جے ڈی چیف لالو پرساد یادو طے وقت سے پہلے ہی تقریب پہنچ چکے تھے۔ دوست رگھونش پرساد اور جنتا دل(یو) صدر شرد یادو کے ساتھ تلک کی رسموں کے درمیان بار بار گھڑی اور موبائل پر وقت دیکھ رہے تھے۔ قریب پونے گیارہ بجے سپا چیف ملائم سنگھ یادو اور وزیراعلی اکھلیش کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی و گورنر رام نائک تقریب کی جگہ پہنچے تو ایک امنگ سی دوڑ گئی۔ پنڈال میں موجودجن لوگوں کے لئے توجہ کا مرکز تیج تھا وہ بھی مودی کو دیکھنے دوڑ پڑے۔ جب مودی نے ملائم کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیاں چڑھنے میں ان کی مدد کی تو سیفئی اور بھی نہال ہوگئی۔ ملائم سنگھ کے میزبانوں اورمہمانوں میں بھی غضب کا مودی پریم دکھائی دیا۔ پنڈال میںموجودبھیڑمودی کی ایک جھلک پانے کو بے تاب رہی۔ جیسے ہی وہ اسٹیج پر پہنچے پنڈال میں بیٹھے لوگ اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر مودی کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگے۔لیکن اسٹیج پر موجود ملائم سنگھ یادو و لالو کے کنبے کا لوگوں کے بھی مودی کے ساتھ فوٹو کھینچوانے کا کریز رہا۔ ملائم سنگھ یادو و آرجے ڈی چیف لالو پرساد یادو کے درمیان ہورہی رشتے داری کے گواہ بنے وزیراعظم نریندر مودی نے اسٹیج پر پہنچتے کی مودی نے ملائم و لالو پرساد یادو دونوں سے ہاتھ ملایا۔

 دونوں کو ساتھ لیکر موجود لوگوں کا استقبال کیا۔ قریب 22منٹ میں وزیراعظم دونوں پریواروں کے افراد سے بڑی فراخ دلی کے ساتھ ملے۔ انہوں نے تیج پرتاپ سنگھ کو آشیر واد دیا تو اکھلیش یادو کی بیٹی کو گود میں لے کر دولارا، ملائم سنگھ یادو کے بھتیجے سورگیہ رویند سنگھ یادو کے بیٹے و مین پوری کے ایم پی تیج پرتاپ سنگھ یادو و لالو پرساد یادو کی بیٹی راج لکشمی کی شادی 26 فروری کو دہلی میں ہوگی۔ سنیچر کو سیفئی میں تلک اتسو میں ہوا۔ تلک تقریب میں وزیراعظم نریندر مودی شامل کیا ہوئے کہ سیاسی ماہرین اس کے  مفادات تلاشنے میں لگ گئے۔ سوال اٹھنے لگا کیا اس کے پیچھے مودی او رملائم کی کوئی نئی سیاسی حکمت عملی ہے؟ کیا بھاجپا راجیہ سبھا میں سپا کا براہ راست یا درپردہ حمایت چاہتی ہے؟ کیا این سی پی کے چیف شرد پروار کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنے کے پیچھے بھی مودی کی ہی مودی کی یہی منشا تھی؟ جب کانگریس اور انا نے بھاجپا کے خلاف جنگ چھیڑنے کا اعلان کردیاہو اور دہلی کے بعد بہار کے سیاسی سنگرام میں وہ غچہ کھا چکی ہو۔ تب کیا مودی کے لئے اپوزیشن پارٹیوں کو سادھنا ضروری ہوگیا ہے؟ کہتے ہیں سیاست میں کوئی کسی کا نہ تو مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ ہی دوست۔ اندر خانے کئی جگہ پر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔

انل نریندر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟