سریش پربھو کا مودی فائیڈریل بجٹ

مودی سرکار میں ریل منتری سریش پربھو کے ذریعہ پیش بجٹ میں مسافر کرایہ نہ بڑھنے کے بارے میں مختلف ذرائع سے پہلے ہی سے پیشن گوئیاں چل رہی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی سرکار نے پہلے ہی مسافر ٹکٹ میں 7 فیصد کرایہ بڑھادیا تھا۔ اور تتکال ٹکٹ سیوا بھی مہنگی کردی تھی اس لئے منتری جی نے مسافر کرایہ پر توجہ نہ دے کر 10 فیصد مال بھاڑہ بڑھانے اور ریلوے میں مختلف ذرائع سے پیسہ آنے کے بارے میں بجٹ میں تدابیر رکھی ہیں۔ مال بھاڑہ یعنی سامان کی ڈھلائی بڑھنے سے خوردنی اجناس کوئلہ، پیٹرول ، ڈیزل کی دھلائی چارج بڑھنے سے ان سب چیزوں کے مہنگا ہونے سے عام آدمی کی جیب پر بوجھ بڑھنے والا ہے۔ اس بجٹ پر سابق ریل منتریوں محترمہ ممتا بنرجی نے بجٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت نے وعدہ کیاتھا کہ ڈیزل کے داموں میں اگر کٹوتی ہوگی تواس کااثر ریل بھاڑے میں کٹوتی کی شکل میں نظر آئے گا لیکن ڈیزل کے داموں میں کئی بار کمی کے باوجود ایسا کچھ نہیں کیاگیا اس بجٹ میں ویژن کی کمی ہے۔ وہیں سابق وزیر ریل اور موجودہ وزیراعلی نتیش کمار نے کہا کہ ریل بجٹ میں کوئی فلاحی اسکیم نہیں ہے۔کرایہ میں اضافہ نہ کیا جانا سننے میں تواچھالگتا ہے لیکن عالمی بازار میں کچے تیل کے داموں میں کمی کے چلتے پیٹرول، ڈیزل کے سستا ہونے کے بعد ریل کرایہ میں اور کمی ہونی چاہئے تھی۔ریلوے کو دیش کی لائف لائن کہاجاتا ہے ، لیکن پچھلی دہائیوں میں ریل بجٹ سیاست اورلوک لبھاؤنے وعدوں کا ذریعہ بن گیاتھا۔ سریش پربھو نے این ڈی اے سرکار کے پہلے مکمل بجٹ میں لیک سے باہر نکلنے کی ہمت دکھائی۔بہرحال ریل منتری سریش پربھو جی نے اپنے پہلے ریل بجٹ 2015-16 میں مسافر کرایہ نہ بڑھا کر مسافروں کو یقینی طور پر راحت دی ہے ایسا بھی لگ رہا تھا اس میں کوئی ایسی لبھاؤنی تجویز نہیں رکھی گئی جس سے ریلوے کی حالت پر برا اثر پڑے یا وہ تجویز زمین پر نہ اتر پائے۔ اس کے ساتھ ہی بجٹ کو متوازن اور تشفی بخش مانا جاناچاہئے ۔ اس میں پرانے اعلانات کوعام نظریہ سے عمل میں لانے کے علاوہ تحفظ، صفائی اور دیگر چھوٹی ضروریات کو پورا کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ بجٹ بہت سے اعلانات کاپلندہ ہی ثابت ہوتا ہے اور کچھ پروجیکٹوں پر عمل کے علاوہ ریلوے میں کچھ نہیں ہوپاتا۔ آج ریلوے کی جس مالی دشواریوں کی وجہ سے قصبات، اضلاع میں ڈبل لائنیں بچھانے یا لائنوں پر بجلی کرن نہیں ہوپانے اورمسافروں کو کراسنگ کی وجہ سے گھنٹوں سفر میں دیری سے دوچار ہوناپڑتا ہے۔ریل منتری جی کواس طرف دھیان دینا ہوگا سیمی ہائی اسپیڈ ٹرین کاخواب جب ہی تعبیر ہوگا۔ جب دولائنوں کے بیچ میں غیراستعمال ریل لائن کو مرمت کرکے ان کو ہائی اسپیڈ لائن کے لائق بنایا جائے گا۔جہاں تک سریش پربھو جی کاسوال ہے انہوں نے اس کااعتراف کیا ہے کہ دراصل یہ ریل بجٹ دیگر لبھاوے بجٹ کی طرح نہیں ہے جن میں عوام کو سنہرے خواب دکھائے جاتے تھے لیکن ان پر عمل ’’زیرو‘‘ ہوتاتھا۔ ان کی یہ بات اچھی ہے۔ یہ بھی نہیں بھولناچاہئے پچھلے ریل بجٹ میں جو اسکیمیں۔ پروجیکٹ شامل کئے گئے تھے ان پر ابھی بہت کام باقی ہے جو ریلوے میں سہولیات میسر کرانے کے لئے بہت ضروری ہیں اس لئے انہوں نے کچھ اہم اسکیموں کواس لئے نہیں شامل کیا کیونکہ ریلوے کی حالت اچھی نہیں ہے ریلوے میں سرمایہ اس حساب سے نہیں آپایا۔ جس کی امید کی جارہی تھی ۔ ریل منتری نے ٹکٹوں کی بکنگ میں دلالوں کے بول بالے کو ختم کرنے کی کوشش کے طور پر ریزرویشن کی میعاد 2 ماہ کے بجائے 4 ماہ کرنے کی تجویز رکھی ہے لیکن دلالوں کا ریلوے میں نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ پچھلی سرکاروں کی لاکھ کوششوں کے باوجود یہ ٹوٹ نہیں سکا ۔ سرکار بھلے ہی جو بھی قدم اٹھالے مگر مسافر اپنی ضرورت کے چلتے دلالوں کے شکنجے سے بچ نہیں پاتے۔ سرکار کے سخت قدموں کی وجہ سے تھوڑے وقفہ کے لئے یہ دلال دبک جاتے ہیں لیکن وقت گزرتے گزرتے آہستہ آہستہ افسران بے توجہ ہوجاتے ہیں۔ضرورت اب اس بات کی ہے حکومت کوکیسے نئی سہولیات دینے کے ساتھ ریلوے کی خدمات میں بہتری کے لئے پرانے سسٹم کو بھی ٹھیک کرناہوگا۔ اور اسی نظریہ کی اس بجٹ میں جھلک ملتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسافروں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے اور خدمات میں بہتری کے لئے زمینی سطح پر کتنا اور کس رفتار سے کام ہوپاتا ہے کل ملا کر ریل منتری کی طرف سے پیش ریل بجٹ کو ریلوے میں بہتری لانے کی جدوجہد مانا جاسکتا ہے۔ اس کی کامیابی سے عوام کو راحت مل سکتی ہے۔ البتہ پہلی بار لگا کہ ریلوے مسافروں کو اپناگراہک مانتا ہے اور اس کی خدمت کے لئے تیار ہے بشرطیکہ وہ اس کی قیمت دینے کو تیار ہوں۔ ریل منتری اپنے بجٹ کو ریل کا نیا جنم بتارہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ریلوے کواس کی خستہ حالی سے نکال کر کیسے نئی روح پھونک سکیں گے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟