بجٹ سیشن ہنگامے دار رہنے کے آثار!

پیرسے شروع ہوئے پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کے کافی ہنگامے دار ہونے کا امکان ہے۔ یہ سیشن تین مہینے تک جاری رہے گا۔ بجٹ سیشن کا پہلا حصہ 20مارچ تک چلے گا اور ایک مہینے کی چھٹی کے بعد 20اپریل سے دوسرا  حصہ شروع ہوگا۔ پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن جیسے سیاسی اوراقتصادی ماحول میں شروع ہوا ہے۔ اس کے چلتے اس کے تئیں لوگوں کی دلچسپی اور زیادہ بڑھ جانا فطری ہی ہے۔اس میں نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی سرکار کو ایوان بالا میں آرڈیننس کی جگہ پر 6 بلوں کو پاس کرانا یقینی کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرناپڑسکتا ہے۔ دہلی اسمبلی چنائو میں بھاجپا کی کراری ہار کے بعد کئی اپوزیشن پارٹیوں نے دراصل آرڈیننس راج کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے اور خصوصی طورپر آراضی قانون میں تبدیلی کے خلاف ان کا موقوف سخت ہے۔ پھر انا ہزارے کادھرنا بھی آگ میں گھی کا کام کرے گا۔ پچھلے کچھ عرصے میں کئی بھاجپا لیڈروں، سنگھ پریوار کے افراد کے متنازعہ بیانات اور افراد زر شرح جیسے کئی اشو اپوزیشن پارٹیوں کے پاس ہیں جن کی معرفت وہ سرکار پر حملہ کرسکتی ہیں۔ پیٹرولیم وزارت میں جاسوسی کے انکشاف کو دیکھتے ہوئے بھی اجلاس کافی ہنگامے دار رہنے کے ا ٓثار ہیں۔ اپوزیشن اسے لیکر سرکار کو گھیرنے کی کوشش کرے گی۔ سرکار پر بھی 6اہم آرڈیننس سے وابستہ بلوں کو پاس کرانے کا چیلنج ہوگا۔ ان میں آراضی ا یکوائرآرڈیننس، کوئلہ بلاک، ای رکشا، شہریت ا ور بیمہ ترمیمی بل شامل ہے۔ راجیہ سبھا میں سرکار کے پاس اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے اسے کچھ بلوں کو پاس کرانے میں دقت ہوسکتی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں آراضی ایکوائر قانون میں ترمیم کے لئے لائے گئے آرڈیننس کے خلاف ہی سرگرم نہیں ہیں۔ بلکہ وہ کچھ دیگر بلوں کی بھی مخالفت کررہی ہیں۔ تحویل آراضی قانون میں تبدیلی کے خلاف سماجی رضا کار انا ہزارے و کانگریس کی مانے تو یوپی اے سرکار کے وقت تیار کئے گئے تحویل آراضی قانون میں کسی بھی طرح کی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری طرف صنعتی دنیا کا خیال ہے کہ یہ ایک سخت قانون ہے اوراس کے ذریعہ صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو رفتار نہیں دی جاسکتی۔ پچھلے سیشن کے دوران راجیہ سبھا میں جس طرح یہ دیکھنے کو ملا کہ اپوزیشن پارٹیوں نے کچھ بلوں پر بحث کے بجائے کئی سوالوں پر سرکار سے جواب مانگنے بہانے کوئی کام کاج نہیں ہونے دیا۔ اس سے ایک نئی روایت قائم ہوتی نظرآئی۔ اندیشہ یہ ہے کہ اس بار بھی ایسا ہی کیاجائے گا۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ حکمراں فریق اپوزیشن کے حملوں سے نپٹنے کے لئے کیا کرے گا۔ لیکن اگر کسی وجہ سے ضروری بل قانونی شکل نہیں دے پاتے تو اس سے کل ملا کر دیش کا ہی نقصان ہوگا۔ لیکن دیش کی چنتا کس کو ہے؟یہاں تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کھیل ہورہا ہے۔
انل نریندر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!