کانٹوں سے بھری ہے کجریوال کی راہ!

 دہلی کے شہریوں نے عام آدمی پارٹی( آپ) کو زبردست اکثریت دے کر اپنا کام کردیا ہے۔ اب باری  وزیراعلی اروند کجریوال کی ہے۔ کجریوال کے سامنے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی چنوتی ہے اسے لیکر وہ سنجیدہ بھی ہیں اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ دہلی کے چیف سکریٹری کو بلا کر پارٹی کا چنائو منشور دے کر دہلی کی عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے ایکشن پلان بنانے کی ہدایت دے دی۔افسر اس میں لگ بھی گئے ہیں۔ لیکن مرکز کے زیرانتظام دہلی کی گدی پر بیٹھنا کجریوال کے لئے کانٹوں بھری سیج پر چلنے جیسا ہوگا۔ آپ نے اپنے چنائو منشور میں کئی ایسے وعدے کئے ہیں جن کے لئے اسے یا تو مودی کی قیادت والی مرکزی سرکار یا پھر بھاجپا کی کمان والی دہلی میونسپل کارپوریشنوں پر منحصر رہنا پڑسکتا ہے۔ جن لوک پال بل، مکمل ریاست کا درجہ، رہائشی اسکیم، لاء اینڈآرڈر اشو، پوری دہلی میں سی سی ٹی وی کیمروں اور وائی فائی وغیرہ کے لئے بجٹ یا اس کی منظوری اس کے سب سے بڑی موجودہ سیاسی حریف پارٹی بھاجپا کی مودی سرکار سے ہی ملے گی۔ اتنا ہی نہیں دیگر بڑے چناوی اشو جیسے غیر منظور کالونیوں کو منظور کرنے اور ان کی ترقی کے لئے بھی انہیں مرکز کی طرف دیکھناپڑے گا۔ دہلی سرکار کا محکمہ مالیات کے افسران کا کہنا ہے کہ سستی بجلی و مفت پانی دستیاب کرانے کے لئے فی الحال سبسڈی ہی راستہ ہے۔ اگست2014 میں مرکزی حکومت سے 31مارچ 2015 تک کے لئے 260 کروڑ روپے کی سبسڈی ملی تھی، اس میں 200 یونٹ تک بل 20 فیصد، اور 400 یونٹ کے بجلی بلوں پر 15فیصدی چھوٹ دی جارہی ہے۔ اگر 400 یونٹ تک 50 فیصدی چھوٹ دی جائے گی تو اس کے لئے تقریبا 1400 سو کروڑ روپے کی ضرورت پڑے گی۔ وہیںبجلی تقسیم کمپنیاں خسارہ کا حوالہ دے کر پہلے ہی دہلی الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن سے بجلی کے داموں میں 10 سے 15 فیصدی بڑھانے میں التجا کرچکی ہیں۔ اگر یہ اضافہ ہوا تو سبسڈی کی رقم 1600سوکروڑ روپے تک پہنچ جائے گی اسی طرح ہر ماہ ہر پریوار 20ہزار لیٹر مفت پانی کے لئے 350 سو کروڑ روپے کی ضرورت پڑے گی۔ اسی طرح اکیلے بجلی پانی کے لئے 1950کروڑ روپے کی ضرورت ہے۔ یہ رقم دہلی سرکار کے ڈوپلمنٹ بجٹ کی11 فیصدی کے قریب ہے۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی تاریخی جیت کے بعد بھلے ہی وزیراعظم نریندر مودی نے اروند کجریوال کو فون پر جیت کی مبارکباد دیتے ہوئے دہلی کی نئی حکومت کو مرکزی سرکار سے ہرممکن مدد دینے کی بات کہی ہے لیکن تمام ایسے اشو ہیںکہ جن کو لیکر مرکز اور کجریوال سرکار میں تکرائو کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ دہلی اسمبلی میں جو بھی بل پاس کرکے مرکز کو بھیجا جائے گا۔ اس پر مرکز کی ہی مہر لگے گی۔پولیس، زمین، پانی، مکمل ریاست کادرجہ، جن لوک پال بل جیسے تمام ایسے اشو ہے کہ جن پر کجریوال سرکار اور مرکزی حکومت کے درمیان تکرائو کے حالات بن سکتے ہیں۔
انل نریندر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟