جیتن رام مانجھی کی ڈوب گئی کشتی!

جمعہ کی صبح کچھ منٹ کے  واقعہ نے بہار کی سیاست میں مہینوں سے چل رہے حملوں وجوابی حملوں کے کھیل کا ڈراپ سین ہوگیا۔ جنتا دل(یو) سے بغاوت کروزیراعلی کی کرسی پر جمے جتین رام مانجھی نے اسمبلی میں شکتی پریکشن سے عین پہلے 10 بجے اپنااستعفی گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی کو سونپ دیا۔ جتین رام مانجھی کے اعتماد کے ووٹ کے دوران جیسے اتھل پتھل اور وفا داری میں تبدیلی کے دلچسپ مناظر کا تصور کیا گیا تھا۔ وہ تعبیر نہیں ہوا۔ اسمبلی کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی راج بھون پہنچ کر مانجھی کے ذریعے استعفی دیئے جانے سے مئی کے بعد بہار میں ہورہی ڈرامائی سیاست کا ایک باب ختم ہوگیا ہے۔ یہ تو کوئی نہیں سوچ رہا تھا کہ مانجھی کو اسمبلی میں اکثریت مل پائے گی، لیکن مانجھی نہ اٹل بہاری باجپئی ہے نہ اروندکیجریوال ہے جو اقلیت کی وجہ سے استعفی دینے کو یادگار بناپائیں ان کااقتدار میں بنے رہنا ناممکن تھا چونکہ جنتا دل(یو) اسمبلی پارٹی نے نتیش کمار کے پیچھے متحد رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اگر مانجھی کچھ ممبران اسمبلی کو توڑ پاتے تو شاید معاملہ زیادہ ڈرامائی بنتا حالانکہ ان کی سرکار بنے رہنے کاامکان تب بھی نہیں ہوتا۔ بھاجپا نے انہیں حمایت دینے کافیصلہ بھی اس لئے کیا تھا کیونکہ اسے بھروسہ تھا کہ مانجھی اکثریت نہیں جٹا پائیں گے۔ بھاجپا کی کوشش مانجھی کے سہارے صرف نتیش کمار ۔ لالو پرساد یادو اتحاد کی فضیحت کرانے کی تھی اس میں وہ کچھ حد تک کامیاب رہی، لیکن جنتا دل(یو) آر جے ڈی اتحاد اپنے نقصان کو کم سے کم رکھنے میں کامیاب رہا۔ بے شک نتیش کمار پھر سے وزیراعلی کا عہدہ ایتوار کو سنبھال لیں گے۔ لیکن اصل امتحان تو نومبر میں اسمبلی چنائو میں ہوگا۔ جب انہیں نیا مینڈیٹ لینا ہوگا۔ ایسے میں فی الحال جو سین ہے ا س میں نتیش کمار۔ لالو خیمہ ونر دکھائی دے رہا ہے اور مانجھی وہ ان کی حمایت میں اتری بھاجپا اپنے منصوبوں میں ناکام نظر آرہی ہے۔ لیکن ایسا ماننا حالات کا تتکالک اور سطحی تجزیہ ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ نتیش کمار کا ایک اورمشکل امتحان وزیراعلی بنتے ہی شروع ہونے والا ہے اور وہ ہوگا۔ لالو یادو کی آر جے ڈی سرکار میں ساجھے دار بنانا۔ کہنے کو تو ابھی اسمبلی میں آر جے ڈی کے دودرجن ممبر اسمبلی بھی نہیں ہے لیکن سچ یہ بھی ہے کہ لوک سبھا چنائو کے بعد سے جنتا دل(یو) کی سرکار لالو اور ان کی اتحادی کانگریس کی مہربانی سے ہی چل رہی تھی اور آگے بھی ان کی ضرورت بنی رہے گی۔ بھاجپا نے لوک سبھا چنائو میں زبردست کامیابی پائی تھی۔ جو اپوزیشن کی بکھرائو کی وجہ سے بھی تھی۔ اور اچھے دنوں کی امید میں بھی کافی ووٹ بینکس میںداڑیں آگئی تھی۔ اب اپوزیشن متحد ہے اور اچھے دنوں کے بارے میں لوگوں کی رائے ملی جلی ہے۔ مانجھی معاملے سے بھاجپا کو کچھ فائدہ تو ہوا ہے، لیکن یہ کہنا ہے مشکل ہے کہ لوگوں نے اسے مہا دلتوں کے ساتھ نتیش کمار کی ناانصافی کی طرح دیکھا۔ مانجھی کے نتیش کے ساتھ بھروسہ توڑنے کی طرح۔ اب اسمبلی چنائو تک بہار کی سیاست میں اسی طرح کی اتھل پتھل جاری رہنے کا امکان ہے۔
انل نریندر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟