آخر کب تک داؤد کو لیکر پاکستان جھوٹ بولتا رہے گا؟

ممبئی میں 1993ء میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں کا ملزم دہشت گرد داؤد ابراہیم 21 سال بعد بھی بھارت کی گرفت میں نہیں آسکا۔ دھماکوں کے بعد وہ پاکستان بھاگ گیا تھا۔ تب سے وہیں رہ کر وہ اپنے گروہ کی سرگرمیاں چلا رہا ہے۔ یہ ہی نہیں وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد سے ہندوستان سمیت دنیا بھر میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں درپردہ طور پر مدد دے رہا ہے۔ ایک ویب پورٹل کے ذریعے انکشاف سے ایک بار ثابت ہوچکا ہے داؤد ابراہیم نہ صرف پاکستان میں ہے بلکہ وہاں سے بے روک ٹوک دہشت کا کاروبار چلا رہا ہے۔ انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم کی دوبئی کے ایک ریئل اسٹیٹ ایجنٹ سے ہوئی بات چیت کے ٹیپ کو ویب پورٹل نیوز موبائل نے جاری کیا ہے۔ ٹیپ میں بات چیت سے صاف ہے کہ داؤد ابراہیم اب بھی پاکستان میں ہے۔ وہ کراچی کے عالیشان علاقے کلفٹن میں ایک عالیشان بنگلے میں رہتا ہے اور وہاں سے اپنا دوبئی تک پورا کاروبار چلا رہا ہے۔ ہندوستانی خفیہ ایجنسیاں پہلے ہی کہتی رہی ہیں کہ داؤد کا برسوں سے کراچی ہی ٹھکانہ ہے جبکہ پاکستان جھوٹ بول کر گمراہ کرتا رہا ہے داؤد اس کے دیش میں نہیں ہے۔ ان پختہ ثبوت کی روشنی میں بے نقاب ہونے کے باوجود اس بات کی قطعی امید نہیں کہ پاکستان کا رویہ بدلے گا اور وہ داؤد کو بھارت کو سونپنے میں مدد کرے گا۔ دراصل داؤد جیسے بھارت کے گھر بھیدی پاکستان کیلئے اس ہتھیار کی طرح ہیں جن کا استعمال وہ بھارت کو لہو لہان کرنے کیلئے کرتا ہے۔ ظاہر ہے جب تک بھارت کے تئیں پاکستان کی دشمنی کا جذبہ ختم نہیں ہوگا ایسے ہتھیاروں کی ضرورت اسے رہے گی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ امریکہ سے بے شمار دولت اور فوجی مدد لینے کے باوجود پاکستان اس کے انتہائی مطلوب اسامہ بن لادن کو سالوں سال تک پناہ دیتا رہا ہے۔ ساتھ میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں بھی وہ ساتھی بنا رہا تو اس سے یہ امید کبھی نہیں کی جانی چاہئے کہ وہ داؤد کو تحفظ دینا بند کردے گا۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ تمام پختہ ثبوت ہونے کے باوجود ہندوستان کیلئے سب سے مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شمار داؤد ابراہیم پر شکنجہ نہیں کسا جاسکا۔ اس کیلئے پچھلی یوپی اے سرکار ہی ذمہ دار ہے۔ پورے10 سال سرکار میں کانگریس رہی کبھی بھی اس نے داؤد کے معاملے پر پاکستان سے سختی سے بات نہیں کی۔ ایسا ہی لچر رویہ ممبئی میں 26/11 حملے پر اپنایا گیا۔ جما
عت الدعوی کے سرغنہ حافظ سعید اور زکی الرحمان لکھوی کے معاملے میں بھی بھارت نے پہلے سختی نہیں برتی تھی نتیجتاً پاکستان کا حوصلہ بڑھتا چلا گیا۔ بہرحال اگر داؤد آج تک ہماری عدلیہ مشینری کی پہنچ سے دور ہے تو اس کیلئے پاکستان پر الزام مڑھ کر اپنی ناکامی نہیں چھپائی جاسکتی۔ یہ ہماری خفیہ اور سکیورٹی ایجنسیوں کی زبردستی لاپروائی نہیں ہے تو کیا؟ تقریباً دو دہائی پہلے سینکڑوں ہندوستانیوں کی جان لینے والے آتنکی کی ایک عدد تصویر بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ہمارا ایک بھگوڑا 20 برسوں سے پڑوسی دشمن دیش کی پناہ میں بیٹھ کر دہشت کا کاروبار چلا رہا ہے اور ہم سوائے اسے دیکھنے اور کوسنے کے کچھ نہیں کرپاتے۔ کیا ہماری سکیورٹی و خفیہ مشینری کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے؟ اس بات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اگر داؤد ابھی بھی پاکستان میں محفوظ ہے تو اس کیلئے ہماری سیاسی قوت ارادی کی بھی کمی رہی ہے۔ لیکن بھارت میں اب نریندر مودی کی ایسی سرکار ہے جس سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ داؤد اور حافظ یا لکھوی کے معاملے میں پاکستان کو کرارا جواب دے گی۔ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ داؤد معاملے میں مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کا انتظار کیجئے والا بیان محض ایک خانہ پوری مانا جانا چاہئے۔ ضروری ہے کہ ہماری سکیورٹی و خفیہ مشینری اپنے بوتے پر داؤد پر قابو کرنے کی اسکیم بنائے اور بار بار اسے سونپنے کی درخواست کرنے اور پاکستان کے ذریعے منع کرنے سے قومی ضمیر کو ٹھیس پہنچتی رہے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟