پچھلے14 مہینوں میں 12 چناؤ میں ہاری اور یہ سلسلہ تھم نہیں رہا!

یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے جتنی تیزی سے بھاجپا آگے بڑھ رہی ہے اس سے دوگنی رفتار سے کانگریس زوال پذیر ہورہی ہے۔ اتنی پرانی پارٹی کی یہ حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ پچھلے14 مہینوں میں کانگریس نے 12 ریاستوں میں مسلسل ایک کے بعد دیگر چناؤ ہارے ہیں۔ اپنی 129 سال کی تاریخ میں ایسی ناکامی اور مسلسل گرتا سیاسی گراف پہلے کبھی کانگریس نے نہیں دیکھا تھا۔ جھارکھنڈ ۔کشمیرکی ہار کے بعد جہاں پہلے وہ سرکار میں ہواکرتی تھی اب اس سے بھی بے دخل ہوگئی ہے۔ کانگریس کے پاس صرف9 ریاستیں ہی بچی ہیں۔ ان میں بھی شمال مشرق میں پانچ اور شمالی ہندوستان میں دو یعنی ہماچل اور اتراکھنڈ اور 2کرناٹک اور کیرل میں باقی ریاستی بچی ہیں۔ وہ جن ریاستوں میں چناؤ ہاری ہے ان میں زیادہ تر وہ تیسرے اور چوتھے نمبر پر کھسک گئی ہے۔ دوسری طرف اب بھاجپا کے پاس 11 ریاستوں میں اقتدار آگیا ہے۔ان میں آندھرا پردیش ، پنجاب میں وہ اتحادی پارٹی ہے۔ لوک سبھا چناؤ میں کانگریس کا مظاہرہ اس کی اب تک کی تاریخ میں سب سے خراب رہا اور وہ 44 سیٹوں پر ہی سمٹ کر رہ گئی ہے۔ اس کے بعد اس نے مہاراشٹر ، ہریانہ میں اقتدار گنوایا۔ دونوں ریاستوں میں وہ تیسرے نمبر پر رہی۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ساتھ اقتدار میں رہی کانگریس اب اس ریاست میں چوتھے نمبر پر آگئی ہے۔ یہاں اسے محض6 سیٹیں ملیں جو علاقائی پارٹی جھارکھنڈ وکاس مورچہ سے بھی کم ہے۔ جھارکھنڈ وکاس مورچہ کو 8 سیٹیں ملیں جبکہ آرجے ڈی اور جنتا دل (یو) کے ساتھ مل کر وہ چناؤ لڑی تھی۔ وہیں جموں و کشمیر کی بات کریں تو یہاں بھی کانگریس پانچ سال تک اقتدار میں سانجھے دار رہی لیکن نتائج میں چوتھے نمبر پر رہی۔ پچھلے 14 مہینوں میں کانگریس 12 چناؤ ہاری ہے۔یہ ریاستیں ہیں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، دہلی، مہاراشٹر، ہریانہ، سکم، آندھرا پردیش، تلنگانہ، اڑیسہ، جموں و کشمیر، جارکھنڈ۔ بھاجپا کے پاس ابھی تک 11 ریاستیں ہیں جس میں گوا سب سے چھوٹی ریاست ہے باقی سب بڑی ریاستیں ہیں۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ کانگریس اعلی کمان نے کبھی بھی اس ہار کے اسباب کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ ہی اس کا محاسبہ کیا۔ نہ تو سونیا گاندھی نے ہار کے اسباب جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی ان کے صاحبزادے راہل گاندھی نے۔ الٹا انہوں نے تو اپنا غصہ پارٹی کے جنرل سکریٹریوں پر ہی اتاردیا۔جموں وکشمیر اور جھارکھنڈ میں ملی زبردست شکست کا جائزہ لینے کیلئے بلائی گئی میٹنگ میں راہل پارٹی کے حکمت عملی سازوں پر بھڑک گئے۔ 12 تغلق لین میں اپنی رہائش گاہ پر بلائی گئی اس میٹنگ میں پہلی بار راہل اپنے جنرل سکریٹریوں سے ناراض دکھائی دئے۔ ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق راہل نے کہا کہ اگر آپ لوگوں نے محنت کی ہوتی تو ان دونوں ریاستوں میں نتیجے مختلف ہوتے۔ ایک سوال کے جواب میں ناراض راہل گاندھی نے ان حکمت عملی سازوں پر نکتہ چینی کی جنہوں نے چناؤ کے دوران کانگریس کی حالت بیحد خراب ہونے کے بارے میں رپورٹ دی تھی۔ راہل گاندھی نے میڈیا شعبے کا کام کاج دیکھ رہے پارٹی جنرل سکریٹری اجے ماکن کی طرف بھی مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا کہ کیا وجہ ہے پارٹی کے ذریعے پارلیمنٹ سے لیکر سڑک تک مودی سرکار کے خلاف جارحانہ مہم چھیڑنے کا اثر عام آدمی تک نہیں پہنچ پایا۔ انہوں نے کہا پچھلے 7 مہینے میں مودی سرکار نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جس کو سراہا جائے الٹے تبدیلی مذہب مشن کے چلتے ان کی بھاری بدنامی ہوئی، پھر کیا وجہ ہے کہ مودی کی مقبولیت ابھی بھی برقرار ہے؟ ہم (کانگریس) کے لوگ اپنی بات آخر جنتا تک پہنچانے میں کیوں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں؟ راہل نے تجویز رکھی کہ پارٹی عہدیداران بنیادی سطح کے پروگراموں سے جڑیں اور ان کی باتیں اور تجاویز سنیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ عام جنتا کانگریس سے کیا امیدیں رکھتی ہے؟ اور کانگریس کی مقبولیت کا گراف کیوں گرتا جارہا ہے؟ کانگریس لیڈر شپ بیشک اپنے عہدیداران کو کوسے لیکن اصل مسئلہ تو لیڈرشپ کا ہے۔ کانگریس آج بے قیادت لگتی ہے۔ یہ بات کون راہل۔ سونیا گاندھی کو سمجھائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟